اتوار، 27 ستمبر، 2020

Tazkira -tul- Awliya ---- Zikar khair Hazrat Abu-al- Abas Sayari (R.A) kai halaat main

 



                                تزکرۃُالاولیاء


                ذکرخیرحضرت ابو العباس سیاریؒ کے حالات میں   


حضرت ابو العباس سیاریؒ عالم شریعت واقف طریقت تھے۔ مردوں میں حقائق کا بیان آپؒ ہی نے فرمایا ہے۔ آپؒ کوحضرت ابوبکر واسطیؒ سے بیعت تھی۔ لوگوں نے آپؒ کو جبری کہا ہے ۔ اس لئے کہ آپؒ نے فرمایا ہے جو گناہ لوح محفوظ میں لکھا ہے بندہ ترک نہیں کر سکتا اور جو چیز تقدیر میں ہے اس سے بندہ نجات نہیں پا سکتا۔ اس کی وجہ سے بہت مصائب آپؒ نے اٹھائے۔ پھر اللہ نے آپؒ کو ان تکالیف سے نجات دی۔ حکما نے پوچھا آپؒ کو روزی کہاں سے ملتے ہے۔ آپؒ نے فرمایا اس کے یہاں سے جو بغیر سبب کے جس کی روزی چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کرتا ہے اور فرمایا طمع کی تاریکی مشاہدے کے نور کو مانع ہے اور فرمایا جب تک مومن ذلت پر اس طرح صابر نہ ہو جیسے عزت پر ہوتا ہے ہرگز اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا اور فرمایا صادق کی زبان پر اللہ علم و حکمت جاری کرتا ہے اور فرمایا انبیاء کو حطرات اور اولیاء کو وساوس اور عوام کو افکار اور عشاق کو عزم اور ارادے ہوا کرتے ہیں اور فرمایا جس پر اللہ مہربانی کرتا ہے اس سے مکروہات ہو جاتے ہیں اور جس پر اللہ قہر کرتا ہے اس سے لوگ بھاگتے ہیں اور فرمایا سوا محجوب کے کوئی حق سے گفتگوں نہیں کرتا اور فرمایا معارف سے باہر آنا معرفت ہے اور فرمایا توحید اس کا نام ہے کہ سوا حق کے دل پر کسی کا گزرنہ ہو یعنی توحید کا اس درجہ غلبہ ہو کہ جو دل میں آئے غلبہ توحید کا سبب ہو جائے اور توحید ہی کا رنگ اختیار کر لے جیسے ابتداً تمام چیزیں توحید ہی ظاہر ہو کر عدد کی صورت میں ہوئیں اور فرمایا موحد وہ ہے جو دریائے توحید میں ڈوب جائے۔ اور فرمایا مشاہدے میں غافل کو لزت نہیں ملتی کیونکہ مشاہدہ حق فناہے۔ لوگوں نے پوچھا آپؒ اللہ سے کس شے کی طالب ہیں۔ آپؒ نے فرمایا جو وہ دے اس لئے کہ میں گدا گر ہوں اور گدا گر کو جو مل جائے وہی اس کے لیے کافی ہے۔ لوگوں نے پوچھا سب سے اچھی ریاضت مرید کے لئے کیا ہے۔ آپؒ نے فرمایا احکام شرع پر صبر اور منہیات سے پرہیز اور صحبت صالح تمام ریاضتوں میں افضل ہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں ہوں ان پر بےشمار اور ہماراسلام ہو آپؒ کو آمین۔





                                                                                  MIRAJ GREEN



                                                              

بدھ، 9 ستمبر، 2020

Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair ALLAH ki naik bande ka

 




                               تزکرۃُالاولیاء


                     ذکرخیر اللہ کی نیک بندی کا 



ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ طواف کر رہا تھا دفعتہً میں نے ایک لڑکی کو دیکھاکہ اس کی کاندھے پر ایک بچہ بہت کم سن بیٹھا ہے اور وہ یہ ندا کررہی ہے۔ اے کریم اے کریم تیرا گزرا ہوا زمانہ (یعنی کیسا موجب شکر ہے)۔ میں نے پوچھا وہ کیا چیز ہے جو تیرے اور مولیٰ کے درمیان گزری۔ کہنے لگی کے میں ایک مرتبہ کشتی پر سوار تھی اور تاجروں کی ایک جماعت ہمارے ساتھ تھی،طوفانی ہوا ایسے زور سے آئی کہ وہ کشتی غرق ہو گئی اور سب کے سب ہلاک ہوئے۔ میں اور یہ بچہ ایک تختہ پر رہ گئے اور ایک حبشی آدمی دوسرے تختہ پر ہم تین کے سوا کوئی بھی ان میں سے نہ بچا۔ جب صبح کا چاندنا ہوا تو اس حبشی نے مجھے دیکھا اور پانی کو ہٹاتاہٹاتا میرے تختہ کے پاس پہنچ گیا اور جب اس کا تختہ میرے تختہ کے ساتھ مل گیا تو وہ بھی میرے تختہ پر آگیا اور مجھ سے بُری بات کی خواہش کرنے لگا۔ میں نے کہا اللہ سے ڈر، ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں، اس سے خلاصی اس کی بندگی سے بھی مشکل ہو رہی ہے چہ جائیکہ اس کا گناہ ایسی حالت میں کریں۔ کہنے لگا ان باتوں کو چھوڑ یہ کام ہو کر رہے گا۔ یہ بچہ میری گود میں سو رہا تھا میں نے چپکے سے ایک چٹکی اس کے بھری جس سے یہ ایک دم رونے لگا۔ میں نے اس سے کہا اچھا زرا ٹھہر جا، میں اس بچہ کو سُلادوں پھر جو مقدر میں ہو گا ہو جائے گا۔ اس حبشی نے اس بچہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو سمندر میں پھینک دیا۔ میں نے اللہ پاک سے کہا" اے وہ پاک ذات جو آدمی کے اور اس کے دلی ارادہ میں بھی حائل ہو جاتی ہے میرے اور اس حبشی کے درمیان تو ہی اپنی طاقت اور قدرت سے جدائی کر، بے تردد تو ہر چیز پر قادر ہے"۔ خدا کی قسم میں ان الفاظ کو پورا بھی نہ کرنے پائی تھی کہ سمندر سے ایک بہت بڑے جانور نے منہ کھولے ہوئے سر نکالا اور اس حبشی کا ایک لقمہ بنا کر سمندر میں گھس گیا اور مجھے اللہ جل شانہ نے مخص اپنی طاقت اور قدرت سے اس حبشی سے بچایا وہ ہر چیز پر قادر ہے پاک ہے، اس کی بڑی شان ہے، اس کے بعد سمندر کی موجیں مجھے تھپیڑتی رہیں یہاں تک کہ وہ تختہ ایک جزیرہ کے کنارہ سے لگ گیا، میں وہاں پر اتر پڑی اور یہ سوچتی رہی کہ یہاں گھاس کھاتی رہوں گی پانی پیتی رہوں گی جب تک اللہ جل شانہ کوئی سہولت کی صورت پیدا کرے، اُسی کی مدد سے کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ چار دن مجھے اس جزیرہ میں گزر گئے۔ پانچویں دن مجھے ایک بڑی کشتی سمندر میں چلتی ہوئی نظرآئی میں نے ایک ٹیلہ پر چڑھ کر اس کشتی کی طرف اشارہ کیا اور کپڑا جو میرے اُوپر تھا اس کو خوب ہلایا۔ اس میں سے تین آدمی ایک چھوٹی سی ناؤ پر بیٹھ کر میرے پاس آئے۔ میں ان کے ساتھ اس ناؤ پر بیٹھ کر اس کشتی پر پہنچی تو میرا وہ بچہ جس کو حبشی نے سمندر میں پھینک دیا تھا ان میں سے ایک آدمی کے پاس تھا۔ میں اس کو دیکھ کر اس پر گر پڑی۔ میں نے اس کو چوما  گلے سے لگایا اور میں نے کہا کہ یہ میرا بچہ ہے۔ میرا جگر پارہ ہے۔ وہ کشتی والے کہنے لگے تو پاگل ہے،تیری عقل ماری گئی ہے۔ میں نے کہا نہ میں پاگل ہوں نہ میری عقل ماری گئی ہے، میرا عجیب قصہ ہے، پھر میں نے ان کو اپنی سرگزشت سنائی یہ ماجرا سن کر سب نے حیرت سے سر جھکا لیا اور کہنے لگے تونے بڑی حیرت کی بات سنائی اور اب ہم تجھے ایسی ہی بات سنائیں جس سے تجھے تعجب ہو گا۔ ہم اس کشتی میں بڑے لطف سے چل رہے تھا ہوا موافق تھی اتنے میں ایک جانور سمندر کے پانی کے اُوپرآیا اس کی پشت پر یہ بچہ تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک غیبی آواز ہم نے سنی کہ اگر اس بچہ کو اس کی پشت پر سے اُٹھا کر اپنے ساتھ نہ لیا تو تمہاری کشتی ڈبودی جائےگی۔ ہم میں سے ایک آدمی اٹھا اور اس بچہ کو اس کی پشت پر سے اٹھا لیا اور وہ جانور پھر پانی کے اندر چلا گیا۔ تیرا واقعہ اور یہ واقعہ دونوں بڑی حیرت کے ہیں اور اب ہم سب عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعدسےاللہ جل شانہ ہمیں کبھی کسی گناہ پر نہ دیکھے گا اس کے بعد ان سب نے توبہ کی وہ پاک ذات  کتنی مہربان ہے بندوں  کے احوال کی خبر رکھنے والی ہے، بہترین احسانات کرنے والی ہے،وہ پاک ذات مصیبت زدوں کی مصیبت کے وقت مدد کو پہنچنے والی ہے۔

اللہ رب العزت  کی کروڑوں رحمتیں ہوں قیامت تک آنے والی ہر ایسی عورت پر اور مسلمان عورتوں اور مردوں کی طرف سے سلام ہو ان کو۔ آمین۔      

Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair aik waliya aurat ka

 


 

                                تزکرۃُالاولیا


                      ذکر خیر ایک ولیہ عورت کا


شیخ بنان ؒ کہتے ہیں کہ میں مصرسے حج کو جا رہا تھا میرا توشہ میرے ساتھ تھا۔ راستہ میں ایک عورت ملی کہنے لگی بنان ؒ تم بھی حمال(مزدور) ہی نکلے، توشہ لادے لئے جارہےہو،  تمہیں یہ وہم ہے کہ وہ تمہیں روزی نہیں دے گا۔ میں نے اس کی بات سن کر اپنا توشہ پھینک دیا،تین دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا۔ راستہ میں چلتے چلتے مجھے ایک پازیب(پاؤں کا زیور) پڑا ہواملا۔ میں نےیہ سوچ کراُٹھا لیا کہ اس کا مالک مل جائے گا تو اس کو دوں گا، شاید اس پر مُجھے کچھ دیدے، تو وہ عورت پھر سامنے آئی کہنے لگی   تم تو دکاندار ہی نکلے کہ وہ پازیب کے بدلہ میں شاید کچھ دے دے، اس کے بعد اس عورت نے میری طرف کچھ درم پھینک دیئے کہ لے انہیں خرچ کرتے رہنا۔ اس عورت نے مجھ سے دریافت کیا کہ حج کس غرض سے کرنے جا رہا ہے؟۔ میں نے بتایا میں نے خواب میں جنت کا ایک محل دیکھا کہ وہ  سارا اس طرح بنا ہوا تھا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی، پھر ایک اینٹ چاندی کی اُوپر تک اس کے بالاخانے بھی اسی طرح بنے ہوئے تھے اور ان میں ہر چوبرجیوں کے درمیان ایک ایک حور ایسی تھی کہ اس کا سا حسن وجمال اور اس کے چہرہ کی رونق کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔ ان کی زلفیں سامنے لٹک رہی تھیں، ان میں سے ایک مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی تو اس کے دانتوں کی روشنی سے جنت چمکنے لگی، اس نے کہا اے جوان اللہ جل شانہ کے لئے مجاہدہ کر تاکہ میں تیرے لئے ہو جاؤں اور تو میرے لئے، پھر میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ میرا قصہ ہے اب مجھ پر ضروری ہے کہ میں انتہائی کوشش کروں اور جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتاہے۔ اس نے کہا اس حور سےمنگنی کے لئے اتنی کوشش کرتا ہے ، ایک حور کی طلب میں اگر اتنی کوشش ہو سکتی ہے تو حور کے رب کی طلب میں کیسی کوشش ہونا چاہئے۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ندامت ہوئی۔ اللہ رب العزت کی بے انتہا رحمتیں ہوں ان پر اور ہماری طرف سے سلام ہو۔ آمین۔   

اتوار، 6 ستمبر، 2020

Koi To Hai Jo Nizam E Hasti Alhaaj Zulfiqar Ali YouTube

Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair Hazrat Shawana Abida (R.A) ka

 




                              تزکرۃُ الاوکیاء


                 ذکرخیر حضرت شعوانہ عابدہ ؒ کا


یحییٰ بن بسطام ؒ کہتے ہیں کہ ہم حضرت شعوانہؒ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور ان کے رونے چلانے کو سنتے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ کسی وقت ان کے پاس جا کر سمجھائیں کہ اس رونے میں کچھ کمی کر دیں۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اچھا جیسے تمہاری رائے ہو۔ ہم ان کے پاس گئے،اور ان سے جا کر کہا۔ اگر تم اس رونے کو کچھ کم کر دو اور اپنی جان پر ترس کھاؤ تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ کہ بدن میں کچھ  طاقت رہے گی، دیر تک اس سے کام لے سکو گی۔ وہ یہ سن کر رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ میری تو یہ تمنا ہے کہ میں اتنا روؤں کہ آنکھ میں آنسو نہ رہے۔ پھر خون کے آنسوؤں سے رونا شروع کر دوں۔ یہاں تک کہ میرے بدن کا سارا خون آنکھوں سے نکلے۔ ایک بھی قطرہ خون کا نہ رہے۔ اور کہنے لگیں کہ مجھے رونا کہاں آتا ہے، مجھے رونا کہا آتا ہے۔ بار بار اس لفظ کو کہتی رہیں کہ مجھے رونا کیاں آتا ہے۔ یہاں تک کے بےہوش ہوگئیں۔


محمدبن معاذ ؒ کہتے ہیں مجھ سے ایک عبادت گزار عورت نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہونے کو جا رہی ہوں۔ وہاں دیکھا کہ سارے آدمی جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا، یہ کیا بات ہے۔ یہ سب کے سب دروازہ پر کیوں جمع ہو گئے۔ کسی نے بتایا کہ ایک عورت آرہی ہے جس کے آنے کی وجہ سے جنت کو سجایا گیا ہے۔ یہ سب اس کے استقبال کے واسطے باہر آگئے ہیں۔  میں نے پوچھا وہ عورت کون ہے؟۔ کہنے لگے کہ ایکہ کی رہنے والی ایک سیاہ باندی ہیں، جن کا نام شعوانہؒ ہے۔ میں نے کہا۔ خدا کی قسم وہ تو میری بہن ہے۔ اتنے میں دیکھا کےشعوانہؒ ایک نہایت عمدہ خوشنما اصیل اُونٹنی پر بیٹھی ہوا میں اُڑی آرہی ہیں۔

 میں نے ان کو آواز دی کہ میری بہن تمہیں اپنا اور میرا تعلق معلوم ہے۔ اپنے رب سے دُعا کردو کہ مجھے بھی تمہارے ساتھ کر دے۔ وہ یہ سن کر ہنسیں اور کہنے لگیں، ابھی تمہارے آنے کا وقت نہیں آیا۔ لیکن میری دو باتیں یاد رکھنا۔ (آخرت کے) غم کو اپنے ساتھ چمٹا لو،اور اللہ تعالیٰ کی محبت اپنی ہرخواہش پر غالب کر دو، اور اس کی پروا نہ کرو کہ موت کب آئے گی، یعنی ہر وقت اس کے لئے تیار رہو۔ اللہ رب العزت کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر اور قیامت تک آنے والی ایسی عورتوں پر اور ہماری طرف سے سلام ہو آپؒ کو۔ آمین۔