Hiqayat-e-Rumi /Maulana Rome (R.A) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Hiqayat-e-Rumi /Maulana Rome (R.A) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 2 ستمبر، 2020

Hiqayat-e-Rumi /Maulana Rome (R.A)

 

                                                                                                                  حکایات رومی




                         آب حیات کا متبادل میوہ








                 حضرت مولانا رومیؒ بیان فرما تے ہیں کہ ایک عقل مند نےقصے کے طور پر بیان کیا کہ ہندوستان میں ایک درخت ہےجو کوئی اس کا پھل کھائے تو نہ کبھی بھوڑھا ہو گا نہ کبھی مرےگا۔ایک بادشاہ نے سن کر یقین کر لیا اور اس درخت اور اس کے پھل کا مشتاق ہو گیا۔اپنے وزیروں میں سےایک عقل مند کو قاصد بنا کر اس درخت کی تلاش میں ہندوستان بھیجا۔وہ شہر شہر پھرا بلکہ نہ کوئی جزیرہ چھوڑانہ پہاڑ نہ جنگل۔جس سے اس نےدرخت کا پتا پوچھا اس نے ہنسی اُڑائی اور کہ دیا کہ ایسی تلاش تو سوائے پا گل کے اور کوئی نہیں کرے گا ۔وہ ہر شخص سے بر خلاف بات سنتا تھا مگر اپنی دُھن چھوڑتا نہ تھا۔ برسوں ہنوستان میں سفر کرتا رہا اور بادشاہ اُس کو اخراجات بھیجتا رہا۔جب مسافرت کی تکلیف حد سے گزری تو آخرکاردرحت کی تلاش سے تنگ آ گیا کیونکہ درخت کا نام و نشان کہیں نہ ملا اور مقصود کی اصلیت سوائے خبر  یا روا یت کے اور کُچھ ثابت نہ ہوئی۔اس کی اُمید کا سلسلہ  ٹوٹ گیا اور جس قدرڈھونڈاتھا وہ سب نہ ڈھوڈنے کے برابر ہو گیا۔مجبور اور ما یوس ہو کراس کے پاس جا ءوں،ممکن ہے کہ سیدھے راستے پر لگ جاءوں۔ چونکہ میں اپنے مطلب سے نا اُمید ہوں شاید کہ اس کی دعا میرے ہمرا ہو جاءے۔الغرض وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سےشیخ کی خدمت میں حاضرہوا اور برستے بادل کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔غرض یہ کہ یا حضرت یہ وقت رحم اور مہربانی کا ہے،میں بلکل نا اُمید ہوں۔بس یہی گھڑی بخشش کی ہے۔شیخ نے کہا کہ اچھی طرح کھُل کر کہو کہ نا اُمیدی کس سبب سے ہے؟ تیرا مطلب کیا تھا اور تیری دُھن اب کیا ہے؟جواب میں عرض کی بادشاہ نے مجھےایک درخت کی دریافت پر مقرر کیا تھا کہ جس کا پھل آب حیات کا حکم رکھتا ہے۔ میں نے اس کو بھرسوں ڈھونڈامگر سوائے طعنوں کہ اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ یہ سن کر شیخ بہت ہنسااور کہا کہ بھلے مانس یہ درخت علم کا ہے۔ تودرخت کی ظاہری صورت کا گمان کر گیا،اس لیے شاخ معنی سے بے نصیب رہا ،کہیں اس کا نام درخت ہو جاتا ہے،کہیں سورج ہو جاتا ہے،کبھی اس کا نام سمندر ہو جاتا ہے اور کبھی بادل۔


اس کی ہزار ہا صفات ہیں۔انہی میں سے ایک صفت بقا ئے دوام ہے۔اے جوان تو صورت کوکیا ڈھونڈتا ہے،اس کے معنی تلاش کر،صورت ظاہرتو چھلکا ہےاور معنی اس پھل کا گودا،نام کو چھوڈاورگن (صفت) کو دیکھ تا کہ گن سے تجھے زات کی رہنمائی ہو۔ نام ہی سے مخلوقات کے پاس اختلاف پیدا ہوا ہے۔جہاں معنی پر پہنچے کہ اختلاف جاتا رہا۔اسی مضمون پرایک دلچسپ مثال سُن تا کہ تو ناموں ہی ناموں میں نہ اٹکا رہ جائے۔

   

          (   ؒ مولانا روم)