شیخ بنان ؒ کہتے ہیں کہ میں مصرسے حج کو جا رہا تھا میرا توشہ میرے ساتھ تھا۔ راستہ میں ایک عورت ملی کہنے لگی بنان ؒ تم بھی حمال(مزدور) ہی نکلے، توشہ لادے لئے جارہےہو، تمہیں یہ وہم ہے کہ وہ تمہیں روزی نہیں دے گا۔ میں نے اس کی بات سن کر اپنا توشہ پھینک دیا،تین دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا۔ راستہ میں چلتے چلتے مجھے ایک پازیب(پاؤں کا زیور) پڑا ہواملا۔ میں نےیہ سوچ کراُٹھا لیا کہ اس کا مالک مل جائے گا تو اس کو دوں گا، شاید اس پر مُجھے کچھ دیدے، تو وہ عورت پھر سامنے آئی کہنے لگی تم تو دکاندار ہی نکلے کہ وہ پازیب کے بدلہ میں شاید کچھ دے دے، اس کے بعد اس عورت نے میری طرف کچھ درم پھینک دیئے کہ لے انہیں خرچ کرتے رہنا۔ اس عورت نے مجھ سے دریافت کیا کہ حج کس غرض سے کرنے جا رہا ہے؟۔ میں نے بتایا میں نے خواب میں جنت کا ایک محل دیکھا کہ وہ سارا اس طرح بنا ہوا تھا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی، پھر ایک اینٹ چاندی کی اُوپر تک اس کے بالاخانے بھی اسی طرح بنے ہوئے تھے اور ان میں ہر چوبرجیوں کے درمیان ایک ایک حور ایسی تھی کہ اس کا سا حسن وجمال اور اس کے چہرہ کی رونق کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔ ان کی زلفیں سامنے لٹک رہی تھیں، ان میں سے ایک مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی تو اس کے دانتوں کی روشنی سے جنت چمکنے لگی، اس نے کہا اے جوان اللہ جل شانہ کے لئے مجاہدہ کر تاکہ میں تیرے لئے ہو جاؤں اور تو میرے لئے، پھر میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ میرا قصہ ہے اب مجھ پر ضروری ہے کہ میں انتہائی کوشش کروں اور جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتاہے۔ اس نے کہا اس حور سےمنگنی کے لئے اتنی کوشش کرتا ہے ، ایک حور کی طلب میں اگر اتنی کوشش ہو سکتی ہے تو حور کے رب کی طلب میں کیسی کوشش ہونا چاہئے۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ندامت ہوئی۔ اللہ رب العزت کی بے انتہا رحمتیں ہوں ان پر اور ہماری طرف سے سلام ہو۔ آمین۔