travel around the world ,fashion ,makeup, cooking, education,artical writing ,health
بدھ، 2 ستمبر، 2020
BIO-GRAPHY OF SHER SHAH SURI IN URDU
شیر شاہ سُوری
شیر شاہ سوری 1485ء مین افغانوں کے قبیلہ سور میں پیدا ہوا۔اس نے پانچ سال حکومت کی لیکن اس کے فلا حی کارناموں سے آج تک برصغیر پاک و ہند کے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
اس کے والد حسن خان نے سکندرلودھی کےعہد میں جونپور کے گورنر،جمال خان کی ملازمت اختیار کی جس نے اسے بہارمیں سہسرام کی جاگیر عطا کی۔ شیر شاہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والدین کی جاگیر کا وارث ہوا۔ بابر کے عہد میں اس نے ایک مرتبہ تلوار کے وار سے شیر کو مارا جس پر اسے "شیر خان" کاخطاب ملا۔ بابر کے دربارسے وابستہ ہو کر اور باریک بین نظروں سے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس نے چپکے چپکے افغانوں کو منظم کر کے ایک زبر دست قوت بنا لیا۔
جب ہمایوں بادشاہ بنا تو شیر خان نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بنگال اور بہار پر قبضہ کر لیا۔ چوسہ اور قنوج کے قریب لڑائیاں ہوئیں۔ ہمایوں مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور ایران چلا گیا اور شیر خان "شیر شاہ " کا لقب اختیار کر کے 1540ء میں ہندوستان کا فرما نروا بن گیا۔
شیر شاہ سوری کے دور حکومت کا سکہ
شیر شاہ سوری کا شمار برصغیر کے بلند پایہ اور کامیاب و کامران حکمرانوں میں ہوتا ہے ۔ اس نے حکومت کےہرشعبےاور ہر محکمے کا انتظام اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا ۔ زمین کی پیمائش اور مالیے کی تشخیص کے منصفانہ قوائد بنائے اور کسانوں کو مالیہ نقد یا جنس کی صورت میں ادا کرنے کی اجازت دی۔
ہر مقدم ( ڈپٹی کمشنر) کو علاقے میں امن کا ذمہ دار ٹھہرا کر پورے ملک میں مکمل امن قائم کر دیا ۔ غیرملکی تجارت عروج پر پہنچی ،اس ضمن میں راستے محفوظ تھے۔ زرات نے بھی ترقی کی ۔
اس کی حکمرانی میں مذہب ، قوم ،قبیلےاور فرقے کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ ٹوڈرمل جو آگے چل کر اکبر کے نورتنوں میں شامل ہوا۔ پہلے پہل شیر شاہ ہی کے ما تحت اُونچے منصب پر پہنچا تھا ۔ شیر شاہ سوری نے رفاہ عامہ کے بے شمار کام کیئے۔ سرائیں بنوائیں، کنویں کھدوائے، مندر اور مساجد بنوائیں۔ سڑکوں کے دونوں اطراف درخت لگوائے۔ اس کے دور میں کسی قسم کی دہشت گردی اور لوٹ مار نہیں تھی۔ مکمل امن و امان کا دور تھا ۔
اس کی عہد کی بنائی ہوئی تین شاہراہیں آج تک چار صدیوں سے زیر استعمال ہیں۔ اول بنگال سے پشاور جی ٹی روڈ یا جرنیلی سڑک ، دوسری لاہور سے ملتان تک ، تیسری دہلی سے راجپوتانےکے قلب تک ۔
جہلم کے قریب رہتاس کا قلعہ اس کی یادگار ہے ۔ 1545ء میں شیر شاہ سوری کی کا لنجر کے راجہ سے لڑائی ہو رہی تھی کہ ایک بارود کے انبار میں گولہ گر کر پھٹا۔ جس سے شیر شاہ بُری طرح جھلس گیا۔ اگلے روز اسے کا لنجرکا قلعہ فتخ ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسی لمحے 22 مئی 1545ء کو وفات پائی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں