منگل، 29 ستمبر، 2020
اتوار، 27 ستمبر، 2020
Tazkira -tul- Awliya ---- Zikar khair Hazrat Abu-al- Abas Sayari (R.A) kai halaat main
تزکرۃُالاولیاء
ذکرخیرحضرت ابو العباس سیاریؒ کے حالات میں
حضرت ابو العباس سیاریؒ عالم شریعت واقف طریقت تھے۔ مردوں میں حقائق کا بیان آپؒ ہی نے فرمایا ہے۔ آپؒ کوحضرت ابوبکر واسطیؒ سے بیعت تھی۔ لوگوں نے آپؒ کو جبری کہا ہے ۔ اس لئے کہ آپؒ نے فرمایا ہے جو گناہ لوح محفوظ میں لکھا ہے بندہ ترک نہیں کر سکتا اور جو چیز تقدیر میں ہے اس سے بندہ نجات نہیں پا سکتا۔ اس کی وجہ سے بہت مصائب آپؒ نے اٹھائے۔ پھر اللہ نے آپؒ کو ان تکالیف سے نجات دی۔ حکما نے پوچھا آپؒ کو روزی کہاں سے ملتے ہے۔ آپؒ نے فرمایا اس کے یہاں سے جو بغیر سبب کے جس کی روزی چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کرتا ہے اور فرمایا طمع کی تاریکی مشاہدے کے نور کو مانع ہے اور فرمایا جب تک مومن ذلت پر اس طرح صابر نہ ہو جیسے عزت پر ہوتا ہے ہرگز اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا اور فرمایا صادق کی زبان پر اللہ علم و حکمت جاری کرتا ہے اور فرمایا انبیاء کو حطرات اور اولیاء کو وساوس اور عوام کو افکار اور عشاق کو عزم اور ارادے ہوا کرتے ہیں اور فرمایا جس پر اللہ مہربانی کرتا ہے اس سے مکروہات ہو جاتے ہیں اور جس پر اللہ قہر کرتا ہے اس سے لوگ بھاگتے ہیں اور فرمایا سوا محجوب کے کوئی حق سے گفتگوں نہیں کرتا اور فرمایا معارف سے باہر آنا معرفت ہے اور فرمایا توحید اس کا نام ہے کہ سوا حق کے دل پر کسی کا گزرنہ ہو یعنی توحید کا اس درجہ غلبہ ہو کہ جو دل میں آئے غلبہ توحید کا سبب ہو جائے اور توحید ہی کا رنگ اختیار کر لے جیسے ابتداً تمام چیزیں توحید ہی ظاہر ہو کر عدد کی صورت میں ہوئیں اور فرمایا موحد وہ ہے جو دریائے توحید میں ڈوب جائے۔ اور فرمایا مشاہدے میں غافل کو لزت نہیں ملتی کیونکہ مشاہدہ حق فناہے۔ لوگوں نے پوچھا آپؒ اللہ سے کس شے کی طالب ہیں۔ آپؒ نے فرمایا جو وہ دے اس لئے کہ میں گدا گر ہوں اور گدا گر کو جو مل جائے وہی اس کے لیے کافی ہے۔ لوگوں نے پوچھا سب سے اچھی ریاضت مرید کے لئے کیا ہے۔ آپؒ نے فرمایا احکام شرع پر صبر اور منہیات سے پرہیز اور صحبت صالح تمام ریاضتوں میں افضل ہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں ہوں ان پر بےشمار اور ہماراسلام ہو آپؒ کو آمین۔
MIRAJ GREEN
منگل، 15 ستمبر، 2020
بدھ، 9 ستمبر، 2020
Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair ALLAH ki naik bande ka
تزکرۃُالاولیاء
ذکرخیر اللہ کی نیک بندی کا
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ طواف کر رہا تھا دفعتہً میں نے ایک لڑکی کو دیکھاکہ اس کی کاندھے پر ایک بچہ بہت کم سن بیٹھا ہے اور وہ یہ ندا کررہی ہے۔ اے کریم اے کریم تیرا گزرا ہوا زمانہ (یعنی کیسا موجب شکر ہے)۔ میں نے پوچھا وہ کیا چیز ہے جو تیرے اور مولیٰ کے درمیان گزری۔ کہنے لگی کے میں ایک مرتبہ کشتی پر سوار تھی اور تاجروں کی ایک جماعت ہمارے ساتھ تھی،طوفانی ہوا ایسے زور سے آئی کہ وہ کشتی غرق ہو گئی اور سب کے سب ہلاک ہوئے۔ میں اور یہ بچہ ایک تختہ پر رہ گئے اور ایک حبشی آدمی دوسرے تختہ پر ہم تین کے سوا کوئی بھی ان میں سے نہ بچا۔ جب صبح کا چاندنا ہوا تو اس حبشی نے مجھے دیکھا اور پانی کو ہٹاتاہٹاتا میرے تختہ کے پاس پہنچ گیا اور جب اس کا تختہ میرے تختہ کے ساتھ مل گیا تو وہ بھی میرے تختہ پر آگیا اور مجھ سے بُری بات کی خواہش کرنے لگا۔ میں نے کہا اللہ سے ڈر، ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں، اس سے خلاصی اس کی بندگی سے بھی مشکل ہو رہی ہے چہ جائیکہ اس کا گناہ ایسی حالت میں کریں۔ کہنے لگا ان باتوں کو چھوڑ یہ کام ہو کر رہے گا۔ یہ بچہ میری گود میں سو رہا تھا میں نے چپکے سے ایک چٹکی اس کے بھری جس سے یہ ایک دم رونے لگا۔ میں نے اس سے کہا اچھا زرا ٹھہر جا، میں اس بچہ کو سُلادوں پھر جو مقدر میں ہو گا ہو جائے گا۔ اس حبشی نے اس بچہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو سمندر میں پھینک دیا۔ میں نے اللہ پاک سے کہا" اے وہ پاک ذات جو آدمی کے اور اس کے دلی ارادہ میں بھی حائل ہو جاتی ہے میرے اور اس حبشی کے درمیان تو ہی اپنی طاقت اور قدرت سے جدائی کر، بے تردد تو ہر چیز پر قادر ہے"۔ خدا کی قسم میں ان الفاظ کو پورا بھی نہ کرنے پائی تھی کہ سمندر سے ایک بہت بڑے جانور نے منہ کھولے ہوئے سر نکالا اور اس حبشی کا ایک لقمہ بنا کر سمندر میں گھس گیا اور مجھے اللہ جل شانہ نے مخص اپنی طاقت اور قدرت سے اس حبشی سے بچایا وہ ہر چیز پر قادر ہے پاک ہے، اس کی بڑی شان ہے، اس کے بعد سمندر کی موجیں مجھے تھپیڑتی رہیں یہاں تک کہ وہ تختہ ایک جزیرہ کے کنارہ سے لگ گیا، میں وہاں پر اتر پڑی اور یہ سوچتی رہی کہ یہاں گھاس کھاتی رہوں گی پانی پیتی رہوں گی جب تک اللہ جل شانہ کوئی سہولت کی صورت پیدا کرے، اُسی کی مدد سے کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ چار دن مجھے اس جزیرہ میں گزر گئے۔ پانچویں دن مجھے ایک بڑی کشتی سمندر میں چلتی ہوئی نظرآئی میں نے ایک ٹیلہ پر چڑھ کر اس کشتی کی طرف اشارہ کیا اور کپڑا جو میرے اُوپر تھا اس کو خوب ہلایا۔ اس میں سے تین آدمی ایک چھوٹی سی ناؤ پر بیٹھ کر میرے پاس آئے۔ میں ان کے ساتھ اس ناؤ پر بیٹھ کر اس کشتی پر پہنچی تو میرا وہ بچہ جس کو حبشی نے سمندر میں پھینک دیا تھا ان میں سے ایک آدمی کے پاس تھا۔ میں اس کو دیکھ کر اس پر گر پڑی۔ میں نے اس کو چوما گلے سے لگایا اور میں نے کہا کہ یہ میرا بچہ ہے۔ میرا جگر پارہ ہے۔ وہ کشتی والے کہنے لگے تو پاگل ہے،تیری عقل ماری گئی ہے۔ میں نے کہا نہ میں پاگل ہوں نہ میری عقل ماری گئی ہے، میرا عجیب قصہ ہے، پھر میں نے ان کو اپنی سرگزشت سنائی یہ ماجرا سن کر سب نے حیرت سے سر جھکا لیا اور کہنے لگے تونے بڑی حیرت کی بات سنائی اور اب ہم تجھے ایسی ہی بات سنائیں جس سے تجھے تعجب ہو گا۔ ہم اس کشتی میں بڑے لطف سے چل رہے تھا ہوا موافق تھی اتنے میں ایک جانور سمندر کے پانی کے اُوپرآیا اس کی پشت پر یہ بچہ تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک غیبی آواز ہم نے سنی کہ اگر اس بچہ کو اس کی پشت پر سے اُٹھا کر اپنے ساتھ نہ لیا تو تمہاری کشتی ڈبودی جائےگی۔ ہم میں سے ایک آدمی اٹھا اور اس بچہ کو اس کی پشت پر سے اٹھا لیا اور وہ جانور پھر پانی کے اندر چلا گیا۔ تیرا واقعہ اور یہ واقعہ دونوں بڑی حیرت کے ہیں اور اب ہم سب عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعدسےاللہ جل شانہ ہمیں کبھی کسی گناہ پر نہ دیکھے گا اس کے بعد ان سب نے توبہ کی وہ پاک ذات کتنی مہربان ہے بندوں کے احوال کی خبر رکھنے والی ہے، بہترین احسانات کرنے والی ہے،وہ پاک ذات مصیبت زدوں کی مصیبت کے وقت مدد کو پہنچنے والی ہے۔
اللہ رب العزت کی کروڑوں رحمتیں ہوں قیامت تک آنے والی ہر ایسی عورت پر اور مسلمان عورتوں اور مردوں کی طرف سے سلام ہو ان کو۔ آمین۔
Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair aik waliya aurat ka
تزکرۃُالاولیا
ذکر خیر ایک ولیہ عورت کا
شیخ بنان ؒ کہتے ہیں کہ میں مصرسے حج کو جا رہا تھا میرا توشہ میرے ساتھ تھا۔ راستہ میں ایک عورت ملی کہنے لگی بنان ؒ تم بھی حمال(مزدور) ہی نکلے، توشہ لادے لئے جارہےہو، تمہیں یہ وہم ہے کہ وہ تمہیں روزی نہیں دے گا۔ میں نے اس کی بات سن کر اپنا توشہ پھینک دیا،تین دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا۔ راستہ میں چلتے چلتے مجھے ایک پازیب(پاؤں کا زیور) پڑا ہواملا۔ میں نےیہ سوچ کراُٹھا لیا کہ اس کا مالک مل جائے گا تو اس کو دوں گا، شاید اس پر مُجھے کچھ دیدے، تو وہ عورت پھر سامنے آئی کہنے لگی تم تو دکاندار ہی نکلے کہ وہ پازیب کے بدلہ میں شاید کچھ دے دے، اس کے بعد اس عورت نے میری طرف کچھ درم پھینک دیئے کہ لے انہیں خرچ کرتے رہنا۔ اس عورت نے مجھ سے دریافت کیا کہ حج کس غرض سے کرنے جا رہا ہے؟۔ میں نے بتایا میں نے خواب میں جنت کا ایک محل دیکھا کہ وہ سارا اس طرح بنا ہوا تھا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی، پھر ایک اینٹ چاندی کی اُوپر تک اس کے بالاخانے بھی اسی طرح بنے ہوئے تھے اور ان میں ہر چوبرجیوں کے درمیان ایک ایک حور ایسی تھی کہ اس کا سا حسن وجمال اور اس کے چہرہ کی رونق کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔ ان کی زلفیں سامنے لٹک رہی تھیں، ان میں سے ایک مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی تو اس کے دانتوں کی روشنی سے جنت چمکنے لگی، اس نے کہا اے جوان اللہ جل شانہ کے لئے مجاہدہ کر تاکہ میں تیرے لئے ہو جاؤں اور تو میرے لئے، پھر میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ میرا قصہ ہے اب مجھ پر ضروری ہے کہ میں انتہائی کوشش کروں اور جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتاہے۔ اس نے کہا اس حور سےمنگنی کے لئے اتنی کوشش کرتا ہے ، ایک حور کی طلب میں اگر اتنی کوشش ہو سکتی ہے تو حور کے رب کی طلب میں کیسی کوشش ہونا چاہئے۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ندامت ہوئی۔ اللہ رب العزت کی بے انتہا رحمتیں ہوں ان پر اور ہماری طرف سے سلام ہو۔ آمین۔
اتوار، 6 ستمبر، 2020
Tazkira-tul-Awliya --- zikar khair Hazrat Shawana Abida (R.A) ka
تزکرۃُ الاوکیاء
ذکرخیر حضرت شعوانہ عابدہ ؒ کا
یحییٰ بن بسطام ؒ کہتے ہیں کہ ہم حضرت شعوانہؒ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور ان کے رونے چلانے کو سنتے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ کسی وقت ان کے پاس جا کر سمجھائیں کہ اس رونے میں کچھ کمی کر دیں۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اچھا جیسے تمہاری رائے ہو۔ ہم ان کے پاس گئے،اور ان سے جا کر کہا۔ اگر تم اس رونے کو کچھ کم کر دو اور اپنی جان پر ترس کھاؤ تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ کہ بدن میں کچھ طاقت رہے گی، دیر تک اس سے کام لے سکو گی۔ وہ یہ سن کر رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ میری تو یہ تمنا ہے کہ میں اتنا روؤں کہ آنکھ میں آنسو نہ رہے۔ پھر خون کے آنسوؤں سے رونا شروع کر دوں۔ یہاں تک کہ میرے بدن کا سارا خون آنکھوں سے نکلے۔ ایک بھی قطرہ خون کا نہ رہے۔ اور کہنے لگیں کہ مجھے رونا کہاں آتا ہے، مجھے رونا کہا آتا ہے۔ بار بار اس لفظ کو کہتی رہیں کہ مجھے رونا کیاں آتا ہے۔ یہاں تک کے بےہوش ہوگئیں۔
محمدبن معاذ ؒ کہتے ہیں مجھ سے ایک عبادت گزار عورت نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہونے کو جا رہی ہوں۔ وہاں دیکھا کہ سارے آدمی جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا، یہ کیا بات ہے۔ یہ سب کے سب دروازہ پر کیوں جمع ہو گئے۔ کسی نے بتایا کہ ایک عورت آرہی ہے جس کے آنے کی وجہ سے جنت کو سجایا گیا ہے۔ یہ سب اس کے استقبال کے واسطے باہر آگئے ہیں۔ میں نے پوچھا وہ عورت کون ہے؟۔ کہنے لگے کہ ایکہ کی رہنے والی ایک سیاہ باندی ہیں، جن کا نام شعوانہؒ ہے۔ میں نے کہا۔ خدا کی قسم وہ تو میری بہن ہے۔ اتنے میں دیکھا کےشعوانہؒ ایک نہایت عمدہ خوشنما اصیل اُونٹنی پر بیٹھی ہوا میں اُڑی آرہی ہیں۔
میں نے ان کو آواز دی کہ میری بہن تمہیں اپنا اور میرا تعلق معلوم ہے۔ اپنے رب سے دُعا کردو کہ مجھے بھی تمہارے ساتھ کر دے۔ وہ یہ سن کر ہنسیں اور کہنے لگیں، ابھی تمہارے آنے کا وقت نہیں آیا۔ لیکن میری دو باتیں یاد رکھنا۔ (آخرت کے) غم کو اپنے ساتھ چمٹا لو،اور اللہ تعالیٰ کی محبت اپنی ہرخواہش پر غالب کر دو، اور اس کی پروا نہ کرو کہ موت کب آئے گی، یعنی ہر وقت اس کے لئے تیار رہو۔ اللہ رب العزت کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر اور قیامت تک آنے والی ایسی عورتوں پر اور ہماری طرف سے سلام ہو آپؒ کو۔ آمین۔
ہفتہ، 5 ستمبر، 2020
Tazkira-tul- Awliya ----- zikar khair Hazrat Rabia Basri (R.A) kai halaat main
تزکرۃُالاولیا
ذکرخیرحضرت رابعہ بصریؒ کے حالات میں
حضرت رابعہ بصریہ مخدومہ پردہ نشین سوختہ عشق و اشتیاق شیفتہ قرب و اختراق تھیں۔ آپؒ شب و روز عبادت میں رہتی تھیں۔آپؒ کو حج کا شوق ہوا۔ ایک گدھا بہت لاغران کے پاس تھا۔اس پر اسباب لاد کر چلیں۔ راہ میں گدھا مر گیا۔ دوسرے ہمراہیوں نے کہا ہم آپؒ کا اسباب لے چلیں گے ۔آپؒ نے کہاتم سب جاؤ میں تم لوگوں کے بھروسے پر نہیں آئی ہوں، قافلہ چلا گیا آپؒ تنہا رہ گئیں۔ آپؒ نے درگاہ الہیٰ میں عرض کی کہ اے ساری کائنات کے بادشاہ عالم کیا ایک عاجز اور غریب عورت کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتاہے کہ تو نے پہلے مجھے اپنے گھر کی طرف بلایا پھر راہ میں گدھے کو مار ڈالا اور تنہا بیابان میں سراسیمہ کر دیا آپؒ کی مناجات ختم نہ ہوئی تھی کہ گدھا زندہ ہو گیا ۔ آپؒ نے پھر اس پر اسباب لادا اور مکہ معظمہ کو چلیں۔ حضرت رابعہ قریب مکہ معظمہ کے پہنچیں تو چند دن بیابان میں قیام پزیر ہوئیں اور مناجات کی کہ میرا دل رنجیدہ ہے اور یہ خیال مجھے درپیش ہے کہ میں کہاں جاتی ہوں میری بنیاد ایک مشک خاک ہے اور خانہ کعبہ پتھر کا بنا ہوا مستحکم مکان ہے میری غرض یہ ہے کہ تو مل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا: اے رابعہ کیا تو چاہتی ہے کہ تمام عالم تہ و بالا ہو اور سب کا خون تیرے نامہ اعمال میں لکھا جائے کیا تو نے نہیں سُنا کہ موسیٰؑ ؑ نے دیدار کی آرزوں کی ہم نے اپنی تجلی کوہ طور پر ڈالی جس کا اثر یہ ہوا کہ تمام پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ایک بار آپؒ پہاڑ پر گئیں تمام شکاری جانورآپؒ کے گرد جمع ہو کر آپؒ کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں حضرت حسن بصریؒ بھی وہاں پہنچے سب جانور ان کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ حسن بصریؒ نے آپؒ سے دریافت کیا کہ جانور مجھے دیکھ کر کیوں بھاگ گئے اور تمہارے پاس کیاں کھڑے رہے۔ آپؒ نے پوچھا کہ تم نے آج کیا کھایا ہے کہا میں نے گوشت روٹی کھائی ہے۔آپؒ نے کہا جب تم نے ان کے بھائیوں کا گوشت کھایا ہے تو وہ تم سے کیوں نہ بھاگیں۔
آپؒ سے حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کیونکر پایا۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کل موجودات کو اللہ کی یاد میں گم کر دیا۔ حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا تم نے اللہ کو کیونکر جانا۔ آپؒ نے فرمایا میں نے بے چون وچرا اللہ کو پہچانا۔ ایک بار لوگوں نے آپؒ سے پوچھا آپؒ کہا سے آئی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ آپؒ نے فرمایا اُس جہان سے آئی ہوں اور اُسی جہان میں جاؤں گی۔ لوگوں نے پوچھا آپؒ اس جہان میں کیا کرتی ہیں فرمایا افسوس لوگوں نے سبب پوچھا جواب دیا اس لیے افسوس کرتی ہوں کہ مجھے رزق اُس جہان سے ملتا ہے اور میں کام اِس جہان کے کرتی ہوں۔
لوگوں نے آپؒ سے محبت کی کیفیت دریافت کی۔ آپؒ نے فرمایا محبت ازل سے آئی اور ابد سے ہو کر گزری محبت نے تمام عالم میں کسی کو ایسا نہ پایا کہ اس کا ایک گونٹ پیتا آخرکار محبت و اصل الی اللہ ہوئی اور وہاں سے ارشاد ہوا " اللہ ان کودوست رکھتا ہے اور اللہ کو دوست رکھتے ہیں"۔ لوگوں نے آپؒ سے پوچھا کہ آپؒ خدا کی عبادت کرتی ہیں اس کو دیکھتی بھی ہیں یا نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ اگر میں اس کو نہ دیکھتی تو اس کی پرستش کیوں کرتی۔ آپؒ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں اس کی جدائی سے ڈرتی ہوں اس لیے کے اس کی خوگر ہو گئی ہوں ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت ندا آئے تو ہماری درگاہ کے لائق نہیں ہے۔
لوگوں نے پوچھا جب گنہگار توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ جب تک اللہ توبہ کرنے کی توفیق نہیں دیتا کوئی گنہگار توبہ نہیں کر سکتا اور جب اللہ نے توبہ کرنے کی توفیق دی توتوبہ قبول بھی کرتا ہے۔ پھر فرمایا تمام اعضا سے خدا کی راہ نہیں ملتی جب تک انسان کا دل بیدار نہ ہو اور جب دل بیدار ہو گیا تو دوستی اعضا کی ضرورت باقی نہیں رہتی یعنی بیدار دل وہ ہے جو حق میں گم ہو جائے اور مدد اعضا کی اس کو ضرورت نہ ہو اور یہی درجہ فنافی اللہ کا ہے۔
آپؒ نے فرمایا صرف زبان سے استغفار کرنا جھوٹوں کا کام ہے اور اگر خود بینی کے ساتھ ہم توبہ کریں تو دوسری توبہ کی محتاجگی باقی رہتی ہے اور فرمایا کہ ثمرہ معرفت خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور فرمایا کہ پہچان عارف کی یہ ہے کہ خدا سے پاک صاف دل طلب کرے جب اللہ اس کو دل دے تو اسے فوراً اللہ کے سپرد کر دے تا کہ اس کے قبضہ میں حفاظت سے رہے اور اس کے پردے میں تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے۔
حضرت صالح عامریؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی کسی کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے کبھی نہ کبھی دروازہ اس پر کشادہ ہو ہی جاتا ہے۔ ایک بار رابعہ بصریہؒ بھی وہاں موجود تھیں یہ سن کر فرمانی لگیں یہ کب تک کہو گے کہ کھلے گا پہلے یہ بتاؤ کہ بند کب ہے جو آئیند کھلے گا یہ سن کر حضرت صالحؒ نے آپؒ کی دانائی کی تعریف کی اور اپنی نادانی پر افسوس کیا۔ ایک بارآپؒ نے ایک شخص کو ہائے غم ہائےغم کہتے ہوئے دیکھا۔ آپؒ نے فرمایا ہائے غم ہائےغم نہ کہ بلکہ ہائے بےغمی ہائے بے غمی پُکار کیونکہ غم کا خاصہ ہے کہ جس کہ پاس یہ ہوتا ہے اس سے سانس تک تولی نہیں جاتی بات کرنا تو امر محال ہے۔
ایک شخص کو آپؒ نے سر میں پٹی باندھے دیکھا اس سے پوچھا کہ پٹی تو نے کیوں باندھی ہے۔ اس نے کہا میرے سر میں دردہے۔ آپؒ نے پوچھا تیری عمر کیا ہو گی اس نے کہا تیس برس کا ہوں۔ آپؒ نے پوچھا اتنے زمانے تک تو بیمار رہا یا تندرست۔ اس نے کہا تندرست رہا۔ آپؒ نے فرمایا افسوس ہے تیس برس تک تو تندرست رہا اور اس کہ شکریہ میں کبھی تو نے پٹی نہ بھاندی اور ایک دن کی بیماری میں شکایت کی پٹی باندھے ہوئے ہے۔ آپؒ گوشہ نشین تھیں اور بہار کی فصل تھی آپؒ کی خادمہ نے کہا ذرا باہر تشریف لا کر صانع کی صنعت ملاحظہ فرمایئے کہ اس نے کیا کیا صناعی کی ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ تو بھی گوشہ نشینی اختیار کر تاکہ خود صانع تجھے دکھائی دے میرا کام صانع کا دیکھنا ہے میں صنعت دیکھ کر کیا کروں گی۔
ایک بار آپؒ نے سات شبانہ روز روزہ رکھا اور شب کو مطلق استراحت نہ فرمائی۔ آٹھویں دن بھوک نے غلبہ کیا اور نفس فریاد کر کے کہنے لگا کہ کب تک آپؒ مجھ کو رنج اور تکلیف میں رکھیں گی اسی وقت ایک شخص آیا اور ایک پیالہ جس میں کوئی چیز کھانے کی تھی آپؒ کو دیا آپؒ نے لے کر رکھ لیا اور چراغ جلانے کو اٹھیں اتنے میں بلی آئی اور اس نے اس پیالہ کو الٹ دیا آپؒ نے خیال کیا کہ پانی سے روزہ کھول لوں آبخورہ ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ آپؒ نے ایک آہ کر کے درگاہ رب العزت میں کہا کہ یا اللہ یہ کیا ہے جو تو میرے ساتھ کرتا ہے ۔غیبی آواز سنائی دی کہ "اے رابعہؒ! اگر تم نعمت دنیا کی طالب ہو تو ہم دینے کو موجود ہیں لیکن اپنا غم تمہارے دل سے نکال لیں گے اس لیے کہ ہمارا غم اور نعمت دنیا دونوں کا گزرایک دل میں محال ہے۔ اے رابعہؒ! تمہاری بھی ایک مراد ہے اور ہماری بھی ایک مراد ہے لیکن ہماری اور تمہاری دونوں مرادیں جمع نہیں ہو سکتیں"۔ یہ ندا سن کر آپؒ نے اپنے دل کو دنیا سے جدا کیا اور امید کو کوتاہ کیا اس طرح پر جیسے کوئی مرنے والا نزع کے وقت اُمید کو ترک کرتا ہے اور دل کو دنیا کی باتوں سے الگ کرتا ہے اور اس قدر دنیا سے الگ ہو گئیں کہ صبح کو دعا فرماتیں کہ اے اللہ تو مجھے اپنی طرف مشغول کر لے تاکہ اہل دنیا مجھےاور کسی کام میں مشغول نہ کر سکیں۔
آپؒ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے کہا بظاہر آپؒ کو کوئی بیماری معلوم نہیں ہوتی پھر کیا سبب ہے جو آپؒ اس طرح رویا کرتی ہیں۔ آپؒ نے فرمایا تم لوگوں کو معلوم نہیں میرے سینے کے اندر ایسی بیماری ہے جس کا علاج کوئی طبیب نہیں کر سکتا اور اس مرض کی دوا وصال الہٰی ہے۔ اسی وجہ سے میں روتی ہوں اور اپنی صورت درد مندوں کے مثل بنائے رکھتی ہوں شاید قیامت میں اسی ذریعہ سے میری آرزوپوری ہو جائے۔
چند بزرگ آپؒ کے پاس آئے۔ آپؒ نے ان سے کہا کہ تم لوگ بیان کرو کہ خدا کی پرستش کیوں کرتے ہو۔ ایک نے کہا کہ ہم دوزخ کے طبقوں سے ڈرتے ہیں اور اسی پر سے قیامت میں گزرنا ہوگا۔ اس کے خوف کی وجہ سے ہم اللہ کی پرستش کرتے ہیں تا کہ دوزخ سے محفوظ رہیں۔ دوسرے نے کہا ہم بہشت کی آرزو کی وجہ سے اللہ کی پرستش کرتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ وہ بندہ بُرا ہے جو اللہ کی پرستش خوف دوزخ یا اُمید جنت کی وجہ سے کرے۔ ان بزرگوں نے کہا آپؒ کو اللہ سے اُمید یا خوف نہیں ہے۔ آپؒ نے فرمایا اس کی عبادت فرض عین ہے۔ پھر فرمایا اگر اللہ بہشت اور دوزخ نہ پیدا کرتا تو کیا اس کی بندے اس کی عبادت نہ کرتے اللہ کی پرستش بے واسطہ کرنا چاہئے۔
لوگوں نے آپؒ کی آزمائش کی غرض سے کہا کہ اللہ نے فضائل مردوں کو بہت دیئے ہیں اور مردوں میں انبیاء بھی بہت ہوئے کبھی کسی عورت کو مرتبہ نبوت نہیں ملا۔ آپؒ کو رتبہ ولایت نہیں مل سکتا پھر بناوٹ کرنے سے کیا فائدہ ہے۔ آپؒ نے کہا تمہارا قول درست ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ دنیا میں آج تک کسی عورت نے بھی سوا مردوں کے خدائی کا دعویٰ کیا ہے یا کوئی عورت بھی مخنث ہوئی ہے۔ حالانکہ ہزاروں مرد مخںث ہوئے ہیں۔ ایک بار آپؒ علیل ہوئیں لوگوں نے علالت کا سبب پوچھا آپؒ نے کہا میرے دل کو بخشت کی طرف توجہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ مجھ پر خفا ہوا اس کا عتاب میری علالت کا باعث ہے۔
حضرت حسن ب بصریؒ اور حضرت مالک بن دینارؒ اور حضرت شفیق بلخیؒ حضرت رابعہ بصریہؒ کے یہاں تھے اور صدق کی بابت آپس میں تزکرہ ہو رہا تھا۔ حضرت حسن بصریؒ نے کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ صبر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا اس قول سے خودی کی بو آتی ہے۔ پھر حضرت شفیق بلخیؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ شکر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے فرمایا اس سے بہتر تعریف صادق کی ہونا چاہئے۔ پھرحضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ اس سے لزت نہ حاصل کرے۔ حضرت رابعہؒ نے پھر یہی فرمایا کہ اس سے بھی بہتر تعریف صادق کی ہونا چاہئے۔ ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ ہم لوگ اپنے اپنے نزدیک تعریف کر چکے اب آپؒ بھی کچھ فرمائیں۔ حضرت رابعہؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جس کو اپنے مولا کا دیدار حاصل ہو اور وہ اپنے زخم کی تکلیف بھول جائے تو ہرگز تعجب کی بات نہیں ہے اس لیے کہ مصرکی عورتوں نے جمال یوسفؑ دیکھ کراپنی انگلیاں کاٹ ڈالی تھیں اور ان کو اس کی تکلیف ذرا بھی معلوم نہیں ہوئی۔
شیوخ بصرہ میں سے ایک بزرگ حضرت رابعہؒ کے پاس تشریف لائے اور بیٹھ کر مزمت دنیا کی کرنے لگے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا معلوم ہوا کہ تمہیں دنیا سے بہت محبت ہے کیونکہ اگر تمہیں دنیا کی محبت نہ ہوتی تو ہرگز اس کا ذکر نہ کرتے۔ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کو دوست رکھتا ہے اسی کا ذکر زیادہ کیا کرتا ہے۔ آپؒ شام سے عبادت الہٰی کو کھڑی ہوتیں اور صبح کر دیتی تھیں فرمایا ہم اللہ کا شکر کس طرح ادا کریں کہ اس نے ہمیں عبادت کرنے کی توفیق دی۔ پھر فرمایا میں اس کے شکرانے میں کل روزہ رکھوں گی۔ آپؒ مناجات میں کہتی تھیں یا اللہ اگر قیامت کے دن مجھے دوزخ میں بھیجے گا تو میں تیرا ایسا بھید ظاہر کر دوں گی جس کی وجہ سے دوزخ مجھ سے ہزار برس کی راہ پر بھاگ جائے گی اور فرماتیں تو نے دنیا میں جو حصہ میرے لئے مقرر کیا ہے اپنے دشمنوں کے دے دے اور جو حصہ عقبیٰ میں میرے لئے رکھا ہے وہ اپنے دوستوں کو بانٹ دے کیونکہ میرے لئے تو ہی کافی ہے۔ اور فرمایا میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کروں تو تو مجھے دوزخ میں جلا اور اگر جنت کی آرزو کی وجہ سے عبادت کروں تو جنت مجھ پر حرام کر اور اگر تجھ کوتجھ سے چاہوں تو اپنا جمال مجھے نصیب کر اور فرمایا اللہ اگرتو مجھے دوزخ بھیجے گا میں فریاد کروں گی کہ میں نے تجھے دوست رکھا دوست دوستوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے۔ غیب سے آواز آئی اے رابعہؒ! تو ہم سے بد گمان نہ ہوہم تجھے اپنے دوستوں کے قرب میں جگہ دیں گے تا کہ تو ہم سے بات کر سکے اور فرمایا اللہ میرا کام اور میری آرزو دنیا میں تیری یاد ہے اور آخرت میں تیرا دیدار آگے تو مالک ہے جو چاہے کر۔ ایک شب کو عبادت کرتے وقت آپؒ نے فرمایا اے اللہ! یا میرے دل کو حاضر کر یا میری بےدلی کی عبادت کو قبول کر لے۔
جب آپؒ کی وفات کا زمانہ قریب ہوا جو مشائخ آپؒ کے قریب تھے ان سے آپؒ نے فرمایا تم لوگ اُٹھ جاؤ اور فرشتوں کے واسطے جگہ خالی کر دو۔ سب باہر چلے آئے اور دروازہ بند کر دیا ایک آواز سب لوگوں نے سنی وہ آواز یہ تھی
یا یھا النفس المطمئنتہ ارجعی
یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر اس کے بعد دیر تک کوئی آواز نہ آئی۔ لوگ اندر گئے دیکھا کہ آپؒ کووصال حق ہو چُکا تھا۔ آپؒ نے اس دنیائے بے بقا سے کوچ فرمایا۔
انا اللہ وانا الیہ راجعون
کسی نے آپؒ کو خواب میں دیکھا پوچھا منکر نکیر سے کیا معاملہ ہوا۔ آپؒ نے جواب دیا جب نکیرین آئے اور مجھ سے انہوں نے پوچھا تیرا رب کون ہے۔ میں نے کہا پلٹ جاؤ اور اللہ سے کہو کہ جب تو نے ایک ناتوان عورت کو باوجود اس کے کہ تجھے تمام مخلوق کا خیال تھا کبھی فراموش نہ کیا پھر وہ کیونکر تجھے بھول جاتی حالانکہ دنیا میں بھی اسے سوا تیرے کسی سے علاقہ نہ تھا۔ تو کیوں فرشتوں کے ذریعہ سے اس سے سوال کرتاہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں ہوں آپؒ پر ستاروں کی تعداد کے بقدر، ریت کے زروں کے برابر، پانی کے قطروں کے برابر اور ان عورتوں پر جو آپؒ کی راہ اختیار کریں اور سلام ہو آپؒ پر مسلمان بہن اور بھائیوں کی طرف سے آمین۔
MIRAJ GREEN
بدھ، 2 ستمبر، 2020
BIO-GRAPHY OF SHER SHAH SURI IN URDU
شیر شاہ سُوری
شیر شاہ سوری 1485ء مین افغانوں کے قبیلہ سور میں پیدا ہوا۔اس نے پانچ سال حکومت کی لیکن اس کے فلا حی کارناموں سے آج تک برصغیر پاک و ہند کے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
اس کے والد حسن خان نے سکندرلودھی کےعہد میں جونپور کے گورنر،جمال خان کی ملازمت اختیار کی جس نے اسے بہارمیں سہسرام کی جاگیر عطا کی۔ شیر شاہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والدین کی جاگیر کا وارث ہوا۔ بابر کے عہد میں اس نے ایک مرتبہ تلوار کے وار سے شیر کو مارا جس پر اسے "شیر خان" کاخطاب ملا۔ بابر کے دربارسے وابستہ ہو کر اور باریک بین نظروں سے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس نے چپکے چپکے افغانوں کو منظم کر کے ایک زبر دست قوت بنا لیا۔
جب ہمایوں بادشاہ بنا تو شیر خان نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بنگال اور بہار پر قبضہ کر لیا۔ چوسہ اور قنوج کے قریب لڑائیاں ہوئیں۔ ہمایوں مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور ایران چلا گیا اور شیر خان "شیر شاہ " کا لقب اختیار کر کے 1540ء میں ہندوستان کا فرما نروا بن گیا۔
شیر شاہ سوری کے دور حکومت کا سکہ
شیر شاہ سوری کا شمار برصغیر کے بلند پایہ اور کامیاب و کامران حکمرانوں میں ہوتا ہے ۔ اس نے حکومت کےہرشعبےاور ہر محکمے کا انتظام اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا ۔ زمین کی پیمائش اور مالیے کی تشخیص کے منصفانہ قوائد بنائے اور کسانوں کو مالیہ نقد یا جنس کی صورت میں ادا کرنے کی اجازت دی۔
ہر مقدم ( ڈپٹی کمشنر) کو علاقے میں امن کا ذمہ دار ٹھہرا کر پورے ملک میں مکمل امن قائم کر دیا ۔ غیرملکی تجارت عروج پر پہنچی ،اس ضمن میں راستے محفوظ تھے۔ زرات نے بھی ترقی کی ۔
اس کی حکمرانی میں مذہب ، قوم ،قبیلےاور فرقے کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ ٹوڈرمل جو آگے چل کر اکبر کے نورتنوں میں شامل ہوا۔ پہلے پہل شیر شاہ ہی کے ما تحت اُونچے منصب پر پہنچا تھا ۔ شیر شاہ سوری نے رفاہ عامہ کے بے شمار کام کیئے۔ سرائیں بنوائیں، کنویں کھدوائے، مندر اور مساجد بنوائیں۔ سڑکوں کے دونوں اطراف درخت لگوائے۔ اس کے دور میں کسی قسم کی دہشت گردی اور لوٹ مار نہیں تھی۔ مکمل امن و امان کا دور تھا ۔
اس کی عہد کی بنائی ہوئی تین شاہراہیں آج تک چار صدیوں سے زیر استعمال ہیں۔ اول بنگال سے پشاور جی ٹی روڈ یا جرنیلی سڑک ، دوسری لاہور سے ملتان تک ، تیسری دہلی سے راجپوتانےکے قلب تک ۔
جہلم کے قریب رہتاس کا قلعہ اس کی یادگار ہے ۔ 1545ء میں شیر شاہ سوری کی کا لنجر کے راجہ سے لڑائی ہو رہی تھی کہ ایک بارود کے انبار میں گولہ گر کر پھٹا۔ جس سے شیر شاہ بُری طرح جھلس گیا۔ اگلے روز اسے کا لنجرکا قلعہ فتخ ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسی لمحے 22 مئی 1545ء کو وفات پائی۔
BIO-GRAPHY OF MIAN MUHAMMAD BAKHSH (R.A) IN URDU
میاں محمد بخشؒ
آپ کی پیدائش:میاں محمد بخش ؒ کے والد کا نام حضرت میاں شمس الد ینؒ تھا۔ آپ ؒکا حسب و نسب چوتھی پشت پر حضرت پیراں شاہ غازی قلندرؒ (دمڑی والی سرکار ؒ )سے جاملتا ہے۔ آپ ؒ 1246 ھ 1846 ء میں خانقاہ شریف کھڑی ریاست میر پور میں پیدا ہوئے۔
آپ کا کلام : شاہ حسین ؒ بُلھے شاہ اور دوسرے صو فی بزرگ شا عروں نے پنجابی شاعری کا آغاز کیا۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ نے ان جید صوفی بزرگوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پنجابی میں شاعری کا آغازکیا۔ آپ کی شاعری لوگوں میں بہت مقبول و عام یے۔ لوگ آپ ؒ کے پنجابی کلام کو بڑے زوق و شوق سے سنتے ہیں۔
آپ ؒ کی ابتدائی تعلیم : آپ ؒ نے حافظ محمد علی صا حب ؒ کے مدرسے سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ سموال شریف میں واقع اس مدرسہ میں آپ ؒ اپنے بھائی حضرت میاں بہاول بخش ؒ کے ساتھ جاتےتھے۔ آپ ؒ کو ابتدا ہی سے علم حاصل کر نے کا بہت شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم میں آپ ؒ نے نظم ونشر، حدیث،فقہ،منطق اور اصول جامع میں مہارت حاصل کی۔
آپ ؒ کی بیعت کا واقع: آپ ؒ کس فردواحد کی بیعت کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ ؒ نےایک رات حضرت سرکاردمڑی والا کی خدمت میں اپنا ورعا بیان کیا۔ انہوں نے آپ ؒ کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا۔
اے فرزند! عالیہ قادریہ میں حضرت سائیں غلام صاحب ؒ کلروڑی شریف والوں کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ اس طرح حضرت میاں محمد بخش ؒ نے جناب سائیں غلام محمد ؒ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
آپ ؒ کی اہم تصانیف
(1) تحفہ رسولیہ معجزات جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(2) تحفہ میراں کرامات غوث الاعظم ۔ ۔
(3)ہدایت المسلمین۔ ۔
(4)گلزار فقراء۔ ۔
(5) نیرنگ عشق۔ ۔
(6) سخی خواص خان ۔
(7) سی حرفی سسی پنوں۔ ۔
(8) سی حرفی ہیر رانجھا۔ ۔
(9) مرزاہ صا حباں۔ ۔
(10) تزکرہ حقیمی۔ ۔
(11) قصہ سوہنی مہینوال۔ ۔
(12) شاہ منصور۔ ۔
(13) شیریں فرہاد۔ ۔
(14) سیف الملوک۔ ۔
(15) قصہ شیخ صنعاں۔ ۔
ان کے علاوہ بھی آپ ؒ کی بہت سی تصانیف ہیں جو کہ نایاب ہو چکی ہیں۔ آپ ؒ کی تحریروں میں شعروں کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ آپ ؒ کو فارسی، اردو، پنجابی اور عربی نظم و نثر پرعبور حا صل تھا ۔
آپ ؒ کا وصال: آپ ؒ ذوالحج کے مہینہ میں 1324 ھ 1907 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
آپ ؒ کا ارشاد تھا کہ مجھے وا شخص غسل دے جس نے ساری عمر غیر محرم کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا ہو۔ آپؒ کو حافظ مطیع اللہ صا حب سموال شریف نے غسل آخرت دیا۔ کیو نکہ انہوں نے کبھی کسی نا محرم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا نہ تھا۔
مزار شریف
آپؒ کا مزار : آپ ؒ کا مزار کھڑی شریف کے قریہ پر نور میں حضرت پیر شاہ غازی قلندر بادشاہ ؒ کے قریب واقع ہے۔ اس کے علاوہ آپ ؒ کا عرس چار مختلف مقامات پر ہوتا ہے۔ لیکن مزار صرف ایک جگہ پر واقع ہے۔ زائرین کی کثیر تعداد آپؒ کے مزار پر بڑے ذوق و شوق سے حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
Hiqayat-e-Rumi /Maulana Rome (R.A)
حکایات رومی
آب حیات کا متبادل میوہ
حضرت مولانا رومیؒ بیان فرما تے ہیں کہ ایک عقل مند نےقصے کے طور پر بیان کیا کہ ہندوستان میں ایک درخت ہےجو کوئی اس کا پھل کھائے تو نہ کبھی بھوڑھا ہو گا نہ کبھی مرےگا۔ایک بادشاہ نے سن کر یقین کر لیا اور اس درخت اور اس کے پھل کا مشتاق ہو گیا۔اپنے وزیروں میں سےایک عقل مند کو قاصد بنا کر اس درخت کی تلاش میں ہندوستان بھیجا۔وہ شہر شہر پھرا بلکہ نہ کوئی جزیرہ چھوڑانہ پہاڑ نہ جنگل۔جس سے اس نےدرخت کا پتا پوچھا اس نے ہنسی اُڑائی اور کہ دیا کہ ایسی تلاش تو سوائے پا گل کے اور کوئی نہیں کرے گا ۔وہ ہر شخص سے بر خلاف بات سنتا تھا مگر اپنی دُھن چھوڑتا نہ تھا۔ برسوں ہنوستان میں سفر کرتا رہا اور بادشاہ اُس کو اخراجات بھیجتا رہا۔جب مسافرت کی تکلیف حد سے گزری تو آخرکاردرحت کی تلاش سے تنگ آ گیا کیونکہ درخت کا نام و نشان کہیں نہ ملا اور مقصود کی اصلیت سوائے خبر یا روا یت کے اور کُچھ ثابت نہ ہوئی۔اس کی اُمید کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور جس قدرڈھونڈاتھا وہ سب نہ ڈھوڈنے کے برابر ہو گیا۔مجبور اور ما یوس ہو کراس کے پاس جا ءوں،ممکن ہے کہ سیدھے راستے پر لگ جاءوں۔ چونکہ میں اپنے مطلب سے نا اُمید ہوں شاید کہ اس کی دعا میرے ہمرا ہو جاءے۔الغرض وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سےشیخ کی خدمت میں حاضرہوا اور برستے بادل کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔غرض یہ کہ یا حضرت یہ وقت رحم اور مہربانی کا ہے،میں بلکل نا اُمید ہوں۔بس یہی گھڑی بخشش کی ہے۔شیخ نے کہا کہ اچھی طرح کھُل کر کہو کہ نا اُمیدی کس سبب سے ہے؟ تیرا مطلب کیا تھا اور تیری دُھن اب کیا ہے؟جواب میں عرض کی بادشاہ نے مجھےایک درخت کی دریافت پر مقرر کیا تھا کہ جس کا پھل آب حیات کا حکم رکھتا ہے۔ میں نے اس کو بھرسوں ڈھونڈامگر سوائے طعنوں کہ اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ یہ سن کر شیخ بہت ہنسااور کہا کہ بھلے مانس یہ درخت علم کا ہے۔ تودرخت کی ظاہری صورت کا گمان کر گیا،اس لیے شاخ معنی سے بے نصیب رہا ،کہیں اس کا نام درخت ہو جاتا ہے،کہیں سورج ہو جاتا ہے،کبھی اس کا نام سمندر ہو جاتا ہے اور کبھی بادل۔
اس کی ہزار ہا صفات ہیں۔انہی میں سے ایک صفت بقا ئے دوام ہے۔اے جوان تو صورت کوکیا ڈھونڈتا ہے،اس کے معنی تلاش کر،صورت ظاہرتو چھلکا ہےاور معنی اس پھل کا گودا،نام کو چھوڈاورگن (صفت) کو دیکھ تا کہ گن سے تجھے زات کی رہنمائی ہو۔ نام ہی سے مخلوقات کے پاس اختلاف پیدا ہوا ہے۔جہاں معنی پر پہنچے کہ اختلاف جاتا رہا۔اسی مضمون پرایک دلچسپ مثال سُن تا کہ تو ناموں ہی ناموں میں نہ اٹکا رہ جائے۔
( ؒ مولانا روم)
WESTMINSTER CASTLE LONDON - COMPLETE HISTORY IN URDU
WESTMINSTER CASTLE LONDON - COMPLETE HISTORY IN URDU
ویسٹ منسٹر کا محل برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں ، ہاؤس آف کامنس اور ہاؤس آف لارڈز ، دونوں کے لئے جلسہ گاہ کا کام کرتا ہے۔ غیر رسمی طور پر اپنے مکینوں کے بعد پارلیمنٹ کے ایوانوں کے نام سے جانا جاتا ہے ، یہ محل وسطی لندن ، انگلینڈ کے شہر ویسٹ منسٹر میں دریائے ٹیمس کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔
اس کا نام ، جو ہمسایہ ویسٹ منسٹر ایبی سے ماخوذ ہے ، دونوں میں سے کسی ایک ڈھانچے کا حوالہ دے سکتا ہے: اولڈ پیلس ، ایک قرون وسطی کی عمارت جو 1834 میں آگ سے تباہ ہوئی تھی ، یا اس کی جگہ نیا محل جو آج کھڑا ہے۔ یہ محل ولی عہد کے دائیں بادشاہ کی ملکیت ہے اور ، رسمی مقاصد کے لئے ، شاہی رہائش گاہ کی حیثیت سے اپنی اصل حیثیت برقرار رکھتا ہے۔ دونوں ایوانوں کے ذریعہ مقرر کردہ کمیٹیاں عمارت کا انتظام کرتی ہیں اور ہاؤس آف کامنز کے اسپیکر اور لارڈ اسپیکر کو رپورٹ کرتی ہیں
گیارہویں صدی میں یہ اس جگہ پر تعمیر ہونے والا پہلا شاہی محل تھا، اور ویس منسٹر انگلینڈ کے بادشاہوں کی ابتدائی رہائش گاہ بن گیا جب تک کہ آگ نے1512 میں زیادہ سے زیادہ عمارت کے حصہ کو نذرآتش کردیا۔ 13ویں صدی میں یہ محل برطانیہ کی پارلیمینٹ کی رہائش گاہ تھی، اور رائل کورٹ آف جسٹس کی نشست کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔
سن 1834 میں پارلیمنٹ کے دوبارہ تعمیر ہونے والے ایوانوں میں اس سے بھی زیادہ آگ نے تباہی مچا دی ، اور قرون وسطی کے بنیادی ڈھانچے ہی بچےرہے جین میں ویسٹ منسٹر ہال ، سینٹ اسٹیفنز کے خانے ، سینٹ میری انڈرکرافٹ کے چیپل ، اور جیول ٹاور تھے۔
محل کی تعمیر نو کے بعد کے مقابلے میں ، معمار چارلس بیری نے گوتھک بحالی کے انداز میں نئی عمارتوں کے ڈیزائن کے ساتھ کامیابی حاصل کی ، جو خاص طور پر 14 ویں 16 ویں صدی کے انگریزی کھڑے گوتھک انداز سے متاثر تھا۔ اولڈ محل کی باقیات (الگ الگ جیول ٹاور کے سوا) اس کے متبادل میں شامل کردی گئیں ، جس میں صحن کی دو سیریز کے ارد گرد متوازی طور پر منظم 1،100 کمروں پر مشتمل ہے اور جس کا فلور رقبہ 112،476 ایم 2 (1،210،680 مربع فٹ) ہے۔
نیو پیلس کے42۔3 ہیکٹر رقبے (8 ایکڑ) کا ایک حصہ دریائے ٹیمس سے دوبارہ حاصل کیا گیا تھا ، جو اس کے قریب 300 میٹر لمبے (980 فٹ) فاٹا ( اگواڑا) کی ترتیب ہے ، جسے ریور فرنٹ کہا جاتا ہے۔
آگسٹس پگین ، گوٹھک فن تعمیر اور طرز پر ایک سرکردہ اتھارٹی ، نے بیری کی مدد کی اور اس محل کا داخلہ ڈیزائن کیا۔
تعمیر کا کام 1840 میں شروع ہوا اور 30 سال تک جاری رہا ، جس میں تاخیر اور قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا ، اسی طرح دونوں اہم معمار کی موت بھی ہوئی۔
داخلی سجاوٹ کے لئے کام وقفے وقفے سے 20 ویں صدی تک جاری رہا۔ اس کے بعد سے لندن کے فضائی آلودگی کے اثرات کو مسترد کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر تحفظ کا کام جاری ہے ، اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ، جس میں 1941 میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد کامنز چیمبر کی تعمیر نو شامل تھی ، کی بڑے پیمانے پر مرمت کا کام جاری ہے ۔ ۔
Palace of Westminster
ویسٹ منسٹر محل برطانیہ میں سیاسی زندگی کے ایک مراکز میں سے ایک اہم مرکز ہے۔ "ویسٹ منسٹر" برطانیہ کی پارلیمنٹ اور برطانوی حکومت کے لئے نہا یت اہم بن گیا ہے ، اور الزبتھ ٹاور ، خاص طور پر ، جسے اکثر اس کی اہم گھنٹی ، بگ بین کے نام سے جانا جاتا ہے ، یہ لندن اور برطانیہ کا عمدہ علامت بن گیا ہے ، جو شہر میں سیاحوں کےلیے سب سے زیادہ مقبول مقام ہے اور پارلیمانی جمہوریت کا ایک نشان ہے۔ روس کے زار نکولس اول نے نئے محل کو "پتھر کا خواب" کہا۔ ویسٹ منسٹر کا محل 1970 کے بعد سے ایک درجہ اول کی عمارت اور 1987 سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ سائٹ کا حصہ رہا ہے۔
Victoria Tower Westminster London
ویسٹ منسٹر کے نیو محل کے لئے چارلس بیری کے ڈیزائن کی سب سے نمایاں خصوصیت وکٹوریہ ٹاور تھی۔ اس کی تکمیل کے وقت ، یہ دنیا کی سب سے اونچی سیکولر عمارت تھی۔
Conjectural restoration of westminster during the reign of Henry Vlll
تصویر میں ہنری ہشتم کے دور میں ویسٹ منسٹر کی قیاسی بحالی دیکھائی جارہی ہے۔ درمیان میں سینٹ اسٹیفن چیپل نما یاں نظرآرہا ہے۔ جس میں بائیں طرف وائٹ چیمبر اور پینٹ چیمبر اور دائیں طرف ویسٹ منسٹر ہال ہے۔ ویسٹ منسٹر ایبی پس منظر میں ہیں۔
Parliament before 1834
پارلیمنٹ کی 1834کی تصویر پیش منظر میں اولڈ پیلس یارڈ کے ساتھ۔ اور ورڈی کی اسٹون بلڈنگ بائیں طرف ہے ، پیچھےکی طرف سوین کی لا عدالتیں اور ویسٹ منسٹر ہال کا جنوبی گیبل نظر آرہا ہے۔ مرکز میں وائٹ ہاؤس آف لارڈز کا "کاٹن مل" فرنٹیج ہے۔ سوین کا رسمی داخلی دروازہ دائیں طرف ہے۔
تاریخ
قرون وسطی کے دوران ویسٹ منسٹر سائٹ کا محل حکمت عملی کے لحاظ سے اہم تھا ، کیونکہ یہ دریائے ٹیمز کے کنارے واقع
تھا۔
یہ قرون وسطی کے زمانے میں تھورنی جزیرے کے نام سے جانا جاتا تھا ، اس جگہ کا استعمال سب سے پہلے شا ہی رہائش گاہ کے لئے کینوٹ دی گریٹ نے اپنے دور حکومت میں 1016 سے 1035 کے دوران کیا تھا۔ سینٹ ایڈورڈ کنفیسٹر ، انگلینڈ کے سب سے زیادہ اختتامی اینگلو سیکسن بادشاہ ، نے لندن شہر کے بالکل مغرب میں تھورنی جزیرے پر شاہی محل تعمیر کیا جس وقت اس نے ویسٹ منسٹر ایبی (1045–1050) تعمیر کیا تھا۔ تھورنی جزیرہ اور آس پاس کا علاقہ جلد ہی ویسٹ منسٹر کے نام سے مشہور ہوا۔ نہ ہی وہ عمارتیں جو اینگلو سیکسن نے استعمال کیں اور نہ ہی ولیم میں استعمال شدہ عمارتیں بچیں۔ اس محل کا سب سے قدیم حصہ (ویسٹ منسٹر ہال) ولیم اول کے جانشین کنگ ولیم دوم کے دور کا ہے۔
قرون وسطی کے آخر میں محل بادشاہ کی اصل رہائش گاہ تھی۔ پارلیمنٹ کے پیشرو ، کوریا ریگیس (رائل کونسل) کی ملاقات ویسٹ منسٹر ہال میں ہوئی (حالانکہ جب وہ دوسرے محلات میں چلا گیا تو یہ بادشاہ کی پیروی کرتا تھا)۔ بڑے شہروں کے نمائندوں کو شامل کرنے والے پہلے سائمن ڈی مونٹفورٹ کی پارلیمنٹ نے 1265 میں محل میں ملاقات کی۔ "ماڈل پارلیمنٹ" ، انگلینڈ کی پہلی سرکاری پارلیمنٹ ، نے 1295 ، اور اس کے بعد کی تمام انگریزی پارلیمنٹس یے محل میں ملاقات کی۔ اور پھر ، 1707 کے بعد ، تمام برطانوی پارلیمنٹس نے محل میں ملاقات کی۔
Palace of Whitehall
1512
میں شاہ ہنری ہشتم کے دور کے ابتدائی سالوں کے دوران ، آگ نے محل کے شاہی رہائشی ("نجی") علاقے کو تباہ کردیا۔1534 میں ، ہنری ہشتم نے یارک پلیس کارڈنل تھامس وولسی سے حاصل کیا ، ایک طاقتور وزیر ، جس نےباد شاہ کی حما یت کھو دی تھی۔ اس کو پیلیس آف وائٹ ہال کا نام دیتے ہوئے ، ہنری نے اسے اپنی اصل رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ اگرچہ ویسٹ منسٹر سرکاری طور پر شاہی محل ہی رہا ،پر یہ پارلیمنٹ کے دو ایوانوں اور مختلف شاہی عدالتوں کے ذریعہ استعمال ہوا۔
چونکہ یہ اصل میں ایک شاہی رہائش گاہ تھی ، لہذا اس محل میں دونوں ایوانوں کے لئے کسی بھی مقصد سے بنا ہوا چیمبر شامل نہیں تھا۔
Paint Chamber
Paint Chamber 1805
پینٹ چیمبر میں اہم ریاستی تقاریب کا انعقاد کیا گیا تھاجو کہ اصل میں 13 صدی میں شاہ ہنری 3 کے مرکزی بیڈ چیمبر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔1801 میں اپر ہاؤس بڑے وائٹ چیمبر (جسے لیزر ہال بھی کہا جاتا ہے) میں چلا گیا ، جس نے کورٹ آف ریکویسٹس کو رکھا ہوا تھا۔
White Chamber
اٹھارہویں صدی کے دوران کنگ جارج 3 کے زریعے پیریج کی تو سیع کی گئی یہ وہ وقت تھا جب آئیرلینڈ کے ساتھ یونیں کے آسنن ایکٹ کیا گیا، اس اقدام کی ضرورت اس لیے ہوئی، کیونکہ اصل چیمبر ساتھیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ نہیں کر سکتا تھا۔
ہاؤس آف کامنز ، جس کا اپنا ایوان نہیں تھا ، کبھی کبھی ویسٹ منسٹر ایبی کے چیپٹر ہاؤس میں اپنی بحثیں کرتا تھا۔
کامنزنے ایڈورڈ ششم کے دور میں شاہی محل کے سابق چیپل ، سینٹ اسٹیفن چیپل کے محل میں مستقل مکان حاصل کیا۔
TIPU SULTAN
TIPU SULTAN
ایک دفعہ ایک سپاہی نے ٹیپو سلطان سے کہا۔
"کیامحبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے"
ٹیپو سلطان نے تاریخ ساز جواب دیتے ہوئےکہا۔"یہ انگریزوں کا قول ہےہم تو کہتے ہیں کہ محبت اور
جنگ میں جو کچھ ہو، وہ جائز ہو"۔
Miraj Green
AHADEES-E-NABVI (S.A.W)
AHADEES-E-NABVI (S.A.W)
گھر کے کام کرنے کی فضیلت
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !عورت کے گھر کے کام کرنے کی کس قدرفضیلت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہروہ عورت جو امور خانہ داری کے سلسلے میں اصلاح کی خاطراگر کوئی چیزایک جگہ سےاٹھاکر دوسری جگہ رکھ دے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کی نظر فرمائے گااور جو شخص اللہ تعالیٰ کا منظور نظر ہو جائے،وہ عزاب الہیٰ میں گرفتارنہیں ہو گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں،باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان،عورتوں کے ثواب کے مطلق مز ید کچھ ارشاد فرما دیجئے۔اس پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی عورت حاملہ ہو تی ہے،اللہ تعالیٰ اس کو اس شخص کا سااجروثواب عطا فرما تا ہےجو اپنے نفس اور اپنے مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ جس وقت وہ عورت بچے کو جنم دیتی ہے،اس سے خطاب ہو تا ہے کہ تمہارے گناہ معاف کر دیئے گئے،اپنے عمال از سر نو شروع کرو۔ (تمہارا اعمال نامہ نئے سرےسے مرتب کیا جائے گا) جب وہ اپنے بچے کو دودھ پلا تی ہے، ہر مرتبہ دودھ پلانے کے عوض اس کے نامہ اعمال میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ (کنزالعمال)۔
اچھے لوگوں کی نشانی
حضرت ابن عمرؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایاکہ تم میں سب سےاچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔(بخاری)۔
چھینکنےاور جمائی لینے کے آداب
حضرت ابو بردہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ کو جب چھینک آتی تھی توآپؐ اپنےہاتھ سے چہرہ مبارک کو ڈھک لیتے تھےاور اس کی آوازکودبا لیتے تھے۔(رواہ مسلم)۔
طاقتور کی نشانی
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ" پہلوان اور طاقتوروہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑدےبلکہ طاقتوروہ ہےجو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لے۔"(رواہ بخاری ومسلم)۔
اللہ کی رضاکی خاطر غصہ پینا
حضرت عبد اللہ بن عمرؓسے مروی ہےکہ رسول اکرمؐ نےفرمایا کہ کسی بندے نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جواللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ کے افضل ہو جسے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر پی جائے۔(رواہ ترمزی و ابو داؤد)۔
نرم مزاجی
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے،رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں تم کو ایسے شخص کی خبرنہ دوں جو دوزخ کیلئے حرام ہےاور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے؟(سنو!میں بتاتا ہوں،دوزخ کی آگ حرام ہے)ہر ایسے شخص پرجومزاج کا تیز نہ ہو،نرم ہو،لوگوں سے قریب ہونے والا ہو،نرم خُوہو۔(رواہ ابوداؤد والترمزی)۔
نرمی اور مہربانی اللہ کو محبوب ہے
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ خضورؐ نےفرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے(نرمی اور مہربانی کرنا اس کی ذاتی صفت ہے) اور نرمی اور مہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے،(یعنی اس کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں نرمی اور مہربانی کا برتاؤ کریں)اورنرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتنا کہ درشتی اور سختی پر نہیں دیتا۔(صحیح مسلم)۔
نرمی کی صفت سے محروم نہ ہوں
حضرت جریرؓ سے روایت ہےکہ حضورنبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جوآدمی نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا،وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا۔(صحیح مسلم)۔
نرم مزاجی دنیا وآخرت کی خیر کا ذریعہ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جس شخص کواللہ تعالیٰ کی طرف سے نرمی کی خصلت کا اپنا حصہ مل گیا اس کو دنیا و آخرت کی خیر میں سے حصہ مل گیا اور جس کو نرمی نصیب نہیں ہوئی،وہ دنیا و آخرت میں خیر کے حصے سے محروم رہا۔(شرح السنتہ)۔
صحت کی دُعا
ترمزی شریف کی روایت ہے۔ ایک بدری دریافت کیا یا رسول اللہ ؐ !نمازوں کے بعد کون سی دُعا کیا کروں؟ نبی کریمؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کیلئے دُعاکیا کرو۔ انہوں نے پھر یہی سوال کیا تو آپؐ نے دوبارہ فرمایا:"دنیا وآخرت کیلئےاللہ سے عافیت کی دُعا کیا کرو"۔
پانی کی قدر کیجئے
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہےکہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ وضو کر رہے تھے(اور اس پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے کام لےرہے تھے)رسول اللہ ؐ ان کے پاس سے گزرےتوآپؐ نے ان سے فرمایا سعد کیسا اسراف ہے(یعنی پانی بے ضرورت کیوں بہایا جا رہا ہے؟)انہوں نے عرض کیا حضورؐکیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے؟( یعنی کیا وضومیں پانی زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے) آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ہاں یہ بھی اسراف میں داخل ہے،اگرچہ تم کسی جاری نہرکے کنارے ہی پر کیوں نہ ہو۔(مسند احمد،سنن ابن ماجہ)۔
گناہوں کو مٹانے والے اعمال
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتادوں جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتاہے؟صحابہ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمایئے،تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کے(۱) تکلیف اور نا گواری کے باوجود پوری طرح کامل وضوکرنا،(۲) مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اُٹھانا(۳) ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا،فرمایا کہ یہی رباط ہے یعنی سرحدوں کی حفاظت جیسا ثواب ہے۔(صحیح مسلم)۔
حیا صرف خیرہی کو لاتی ہے
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ " حیا صرف خیر ہی کو لاتی ہے"۔(صحیح مسلم)۔
مزاح میں بھی حق بات کہنا
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ نے حضورؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ آپؐ ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ"میں (مزاح میں بھی)حق ہی کہتا ہوں،(یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)"۔(رواہ الترمزی)۔
حضورؐ کا مزاح
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ؐ سے سواری کیلئے اونٹ مانگا توآپؐ نے ارشاد فرمایا کے"ہاں میں تم کو سواری کیلئے ایک اُنٹنی کا بچہ دوگا"،اس شخص نے عرض کیا کہ میں اُونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ توآپؐ نے ارشاد فرمایا کہ" اونٹ اونٹنیوں ہی کے تو بچے ہوتے ہیں( یعنی ہر اُونٹ کسی اُونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اُونٹ بھی دیا جائے گا وہ اُونٹنی کا بچہ ہی ہو گا)"۔(جامع ترمزی،سنن ابی داؤد)۔
کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائےگی
حضرت انسؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ؐ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ"کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی"،اس (بے چاری)نے عرض کیا کہ ان میں(یعنی بوڑھیوں میں) کیا ایسی بات ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جا سکیں گی؟وہ بوڑھی قرآن خواں تھی۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ" کیا تم قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھتی ہو؟" ترجمہ:جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشونما کریں گے اور اِن کونوخیزدو شیزائیں بنا دیں گے"۔
رسول اللہ ؐ قہقہہ لگا کر کبھی نہیں ہنسے
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں نے حضورنبی کریمؐ کو کبھی پوری طرح(کھل کھلا کر) ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپؐ کے دہن مُبارک کا اندرونی حصہ نظر آ جاتا(یعنی آپؐ اس طرح کھل کھلا کر اور قہقہہ لگا کر کبھی نہیں ہنستے تھے کہ آپؐ کے دہن مُبارک کا اندرونی حصہ نظر آ سکتا) بس تبسم فرماتے تھے۔(صحیح بخاری)۔
حضورؐ کے چہرہ انور پر ہمیشہ تبسم رہتا
حضرت جریربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ جب سے مجھے اسلام نصیب ہوا کبھی ایسا نہیں ہواکہ رسول اللہ ؐ نے مجھے(خدمت میں) حاضری سے روکا ہواور جب بھی آپؐ نے مجھے دیکھا تو آپؐ نے تبسم فرمایا (یعنی ہمیشہ مسکرا کر ملے)۔(صحیح بخاری ومسلم)۔
ہدیہ اور تحائف میل جول کا ذریعہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ" آپؐ نے فرمایا آپس میں ہدیئے تحفے دیا کرو، ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش کو دور کر دیتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کیلئے بکری کے کھر کے ایک ٹکڑے کا بھی حقیر اور کمتر نہ سمجھے۔(جامع ترمزی)۔
ہدیہ کے بدلے میں بطورِشکریہ تعریف کرنا
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ" جس شخص کو ہدیہ (تحفہ) دیا جائے تو اگر اس کے پاس ہدیہ میں دینے کیلئے کچھ موجود ہو تو اس کو دے دے اور جس کے پاس بدلہ میں دینے کے لیئے کچھ نہ ہو تووہ(بطور شکریہ کے) اس کی تعریف کرے اوراس کے حق میں کلمہ خیر کہے، جس نے ایسا کیا اس نے شکریہ کا حق ادا کر دیا اور جس نے ایسا نہیں کیا اور احسان کے معا ملہ کو چھپایا تو اس نے نا شکری کی اور جو کوئی اپنے آپ کو آراستہ دکھائے اس صفت سے جو اس کو عطاء نہیں ہوئی تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دھوکے فریب کے دو کپڑے پہنے۔(ترمزی،ابی داؤد)۔
سایہ اور دُھوپ
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں فرمایا " جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں ہو اور سایہ اس سے یوں گزرنے لگےکہ جسم کا ایک حصہ دھوپ کی زد میں آ جائے اور ایک حصہ سایہ میں ہو تو اُسے چاہیے کے کھڑا ہو جائے۔ یعنی آدھا دُھوپ اور آدھا سایہ میں نہ رہے بلکہ دونوں میں سے ایک حالت اختیار کرے"۔
حضرت ابنِ بریدہؓ کی روایت ہے کہ" رسول اللہ ؐ نے سایہ اور دُھوپ کے درمیان بیٹھنے سے منع کیا ہے"۔
کوئی مرض لا علاج نہیں
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسولؐ نے فرمایا" ہر بیماری کے لیے دوا ہے۔ جب دوا بیماری کے موافق مل جاتی ہے تو بیمار حکم الہٰی سے تندرستی پا لیتا ہے"۔(مسلم شریف)۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسولؐ نے فرمایا " اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں کی،جس کے لیے شفا نہ اتاردی ہو "۔(بخاری ومسلم شریف)۔
بیماری کو بُرا نہ کہو
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسولؐ اُم سائبؓ یا اُم مسیبؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور اُن سے دریافت کیا تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کانپ رہی ہو۔ انہوں نے عرض کیا نخار چڑھا ہوا ہے۔ اللہ اسے برکت نہ دے ( اس کا بُراہو)۔ حضورؐ نے فرمایا بخار کو بُرا نہ کہو کیونکہ یہ اولادِآدمؑ کی خطائیں دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ اور میل صاف کر دیتی ہے۔(مسلم شریف)۔
خوش اخلاقی
(۱) ( عبد اللہ بن عمروؓ)تم میں سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔(بخاری،مسلم)
(۲)ابو ہریرہؓ) ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔(داؤد،دارمی)۔
(۳)(ابوالدردا ؓ ) قیامت کے دن مومن کے میزانِ عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جو رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔(داؤد،ترمزی)۔
(۴)(عائشہ صدیقہؓ) حضورؐ کی دُعا " اے میرے اللہ، تو نے اپنے کرم سے میرے جسم کی ظاہری بناوٹ اچھی بنائی ہے،اسی طرح میرے اخلاق بھی اچھے کر دے۔(احمد)۔
Miraj Green
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
Koi to hai jo nizam-e-hasti chala raha hai wohi KHUDA hai Miraj...
-
تزکرۃُالاولیاء ذکرخیرحضرت ابوالعباس نہاوندیؒ کے حالات میں حضرت شیخ ابوالع...