ہفتہ، 5 ستمبر، 2020
Tazkira-tul- Awliya ----- zikar khair Hazrat Rabia Basri (R.A) kai halaat main
تزکرۃُالاولیا
ذکرخیرحضرت رابعہ بصریؒ کے حالات میں
حضرت رابعہ بصریہ مخدومہ پردہ نشین سوختہ عشق و اشتیاق شیفتہ قرب و اختراق تھیں۔ آپؒ شب و روز عبادت میں رہتی تھیں۔آپؒ کو حج کا شوق ہوا۔ ایک گدھا بہت لاغران کے پاس تھا۔اس پر اسباب لاد کر چلیں۔ راہ میں گدھا مر گیا۔ دوسرے ہمراہیوں نے کہا ہم آپؒ کا اسباب لے چلیں گے ۔آپؒ نے کہاتم سب جاؤ میں تم لوگوں کے بھروسے پر نہیں آئی ہوں، قافلہ چلا گیا آپؒ تنہا رہ گئیں۔ آپؒ نے درگاہ الہیٰ میں عرض کی کہ اے ساری کائنات کے بادشاہ عالم کیا ایک عاجز اور غریب عورت کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتاہے کہ تو نے پہلے مجھے اپنے گھر کی طرف بلایا پھر راہ میں گدھے کو مار ڈالا اور تنہا بیابان میں سراسیمہ کر دیا آپؒ کی مناجات ختم نہ ہوئی تھی کہ گدھا زندہ ہو گیا ۔ آپؒ نے پھر اس پر اسباب لادا اور مکہ معظمہ کو چلیں۔ حضرت رابعہ قریب مکہ معظمہ کے پہنچیں تو چند دن بیابان میں قیام پزیر ہوئیں اور مناجات کی کہ میرا دل رنجیدہ ہے اور یہ خیال مجھے درپیش ہے کہ میں کہاں جاتی ہوں میری بنیاد ایک مشک خاک ہے اور خانہ کعبہ پتھر کا بنا ہوا مستحکم مکان ہے میری غرض یہ ہے کہ تو مل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا: اے رابعہ کیا تو چاہتی ہے کہ تمام عالم تہ و بالا ہو اور سب کا خون تیرے نامہ اعمال میں لکھا جائے کیا تو نے نہیں سُنا کہ موسیٰؑ ؑ نے دیدار کی آرزوں کی ہم نے اپنی تجلی کوہ طور پر ڈالی جس کا اثر یہ ہوا کہ تمام پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ایک بار آپؒ پہاڑ پر گئیں تمام شکاری جانورآپؒ کے گرد جمع ہو کر آپؒ کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں حضرت حسن بصریؒ بھی وہاں پہنچے سب جانور ان کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ حسن بصریؒ نے آپؒ سے دریافت کیا کہ جانور مجھے دیکھ کر کیوں بھاگ گئے اور تمہارے پاس کیاں کھڑے رہے۔ آپؒ نے پوچھا کہ تم نے آج کیا کھایا ہے کہا میں نے گوشت روٹی کھائی ہے۔آپؒ نے کہا جب تم نے ان کے بھائیوں کا گوشت کھایا ہے تو وہ تم سے کیوں نہ بھاگیں۔
آپؒ سے حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کیونکر پایا۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کل موجودات کو اللہ کی یاد میں گم کر دیا۔ حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا تم نے اللہ کو کیونکر جانا۔ آپؒ نے فرمایا میں نے بے چون وچرا اللہ کو پہچانا۔ ایک بار لوگوں نے آپؒ سے پوچھا آپؒ کہا سے آئی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ آپؒ نے فرمایا اُس جہان سے آئی ہوں اور اُسی جہان میں جاؤں گی۔ لوگوں نے پوچھا آپؒ اس جہان میں کیا کرتی ہیں فرمایا افسوس لوگوں نے سبب پوچھا جواب دیا اس لیے افسوس کرتی ہوں کہ مجھے رزق اُس جہان سے ملتا ہے اور میں کام اِس جہان کے کرتی ہوں۔
لوگوں نے آپؒ سے محبت کی کیفیت دریافت کی۔ آپؒ نے فرمایا محبت ازل سے آئی اور ابد سے ہو کر گزری محبت نے تمام عالم میں کسی کو ایسا نہ پایا کہ اس کا ایک گونٹ پیتا آخرکار محبت و اصل الی اللہ ہوئی اور وہاں سے ارشاد ہوا " اللہ ان کودوست رکھتا ہے اور اللہ کو دوست رکھتے ہیں"۔ لوگوں نے آپؒ سے پوچھا کہ آپؒ خدا کی عبادت کرتی ہیں اس کو دیکھتی بھی ہیں یا نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ اگر میں اس کو نہ دیکھتی تو اس کی پرستش کیوں کرتی۔ آپؒ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں اس کی جدائی سے ڈرتی ہوں اس لیے کے اس کی خوگر ہو گئی ہوں ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت ندا آئے تو ہماری درگاہ کے لائق نہیں ہے۔
لوگوں نے پوچھا جب گنہگار توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ جب تک اللہ توبہ کرنے کی توفیق نہیں دیتا کوئی گنہگار توبہ نہیں کر سکتا اور جب اللہ نے توبہ کرنے کی توفیق دی توتوبہ قبول بھی کرتا ہے۔ پھر فرمایا تمام اعضا سے خدا کی راہ نہیں ملتی جب تک انسان کا دل بیدار نہ ہو اور جب دل بیدار ہو گیا تو دوستی اعضا کی ضرورت باقی نہیں رہتی یعنی بیدار دل وہ ہے جو حق میں گم ہو جائے اور مدد اعضا کی اس کو ضرورت نہ ہو اور یہی درجہ فنافی اللہ کا ہے۔
آپؒ نے فرمایا صرف زبان سے استغفار کرنا جھوٹوں کا کام ہے اور اگر خود بینی کے ساتھ ہم توبہ کریں تو دوسری توبہ کی محتاجگی باقی رہتی ہے اور فرمایا کہ ثمرہ معرفت خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور فرمایا کہ پہچان عارف کی یہ ہے کہ خدا سے پاک صاف دل طلب کرے جب اللہ اس کو دل دے تو اسے فوراً اللہ کے سپرد کر دے تا کہ اس کے قبضہ میں حفاظت سے رہے اور اس کے پردے میں تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے۔
حضرت صالح عامریؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی کسی کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے کبھی نہ کبھی دروازہ اس پر کشادہ ہو ہی جاتا ہے۔ ایک بار رابعہ بصریہؒ بھی وہاں موجود تھیں یہ سن کر فرمانی لگیں یہ کب تک کہو گے کہ کھلے گا پہلے یہ بتاؤ کہ بند کب ہے جو آئیند کھلے گا یہ سن کر حضرت صالحؒ نے آپؒ کی دانائی کی تعریف کی اور اپنی نادانی پر افسوس کیا۔ ایک بارآپؒ نے ایک شخص کو ہائے غم ہائےغم کہتے ہوئے دیکھا۔ آپؒ نے فرمایا ہائے غم ہائےغم نہ کہ بلکہ ہائے بےغمی ہائے بے غمی پُکار کیونکہ غم کا خاصہ ہے کہ جس کہ پاس یہ ہوتا ہے اس سے سانس تک تولی نہیں جاتی بات کرنا تو امر محال ہے۔
ایک شخص کو آپؒ نے سر میں پٹی باندھے دیکھا اس سے پوچھا کہ پٹی تو نے کیوں باندھی ہے۔ اس نے کہا میرے سر میں دردہے۔ آپؒ نے پوچھا تیری عمر کیا ہو گی اس نے کہا تیس برس کا ہوں۔ آپؒ نے پوچھا اتنے زمانے تک تو بیمار رہا یا تندرست۔ اس نے کہا تندرست رہا۔ آپؒ نے فرمایا افسوس ہے تیس برس تک تو تندرست رہا اور اس کہ شکریہ میں کبھی تو نے پٹی نہ بھاندی اور ایک دن کی بیماری میں شکایت کی پٹی باندھے ہوئے ہے۔ آپؒ گوشہ نشین تھیں اور بہار کی فصل تھی آپؒ کی خادمہ نے کہا ذرا باہر تشریف لا کر صانع کی صنعت ملاحظہ فرمایئے کہ اس نے کیا کیا صناعی کی ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ تو بھی گوشہ نشینی اختیار کر تاکہ خود صانع تجھے دکھائی دے میرا کام صانع کا دیکھنا ہے میں صنعت دیکھ کر کیا کروں گی۔
ایک بار آپؒ نے سات شبانہ روز روزہ رکھا اور شب کو مطلق استراحت نہ فرمائی۔ آٹھویں دن بھوک نے غلبہ کیا اور نفس فریاد کر کے کہنے لگا کہ کب تک آپؒ مجھ کو رنج اور تکلیف میں رکھیں گی اسی وقت ایک شخص آیا اور ایک پیالہ جس میں کوئی چیز کھانے کی تھی آپؒ کو دیا آپؒ نے لے کر رکھ لیا اور چراغ جلانے کو اٹھیں اتنے میں بلی آئی اور اس نے اس پیالہ کو الٹ دیا آپؒ نے خیال کیا کہ پانی سے روزہ کھول لوں آبخورہ ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ آپؒ نے ایک آہ کر کے درگاہ رب العزت میں کہا کہ یا اللہ یہ کیا ہے جو تو میرے ساتھ کرتا ہے ۔غیبی آواز سنائی دی کہ "اے رابعہؒ! اگر تم نعمت دنیا کی طالب ہو تو ہم دینے کو موجود ہیں لیکن اپنا غم تمہارے دل سے نکال لیں گے اس لیے کہ ہمارا غم اور نعمت دنیا دونوں کا گزرایک دل میں محال ہے۔ اے رابعہؒ! تمہاری بھی ایک مراد ہے اور ہماری بھی ایک مراد ہے لیکن ہماری اور تمہاری دونوں مرادیں جمع نہیں ہو سکتیں"۔ یہ ندا سن کر آپؒ نے اپنے دل کو دنیا سے جدا کیا اور امید کو کوتاہ کیا اس طرح پر جیسے کوئی مرنے والا نزع کے وقت اُمید کو ترک کرتا ہے اور دل کو دنیا کی باتوں سے الگ کرتا ہے اور اس قدر دنیا سے الگ ہو گئیں کہ صبح کو دعا فرماتیں کہ اے اللہ تو مجھے اپنی طرف مشغول کر لے تاکہ اہل دنیا مجھےاور کسی کام میں مشغول نہ کر سکیں۔
آپؒ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے کہا بظاہر آپؒ کو کوئی بیماری معلوم نہیں ہوتی پھر کیا سبب ہے جو آپؒ اس طرح رویا کرتی ہیں۔ آپؒ نے فرمایا تم لوگوں کو معلوم نہیں میرے سینے کے اندر ایسی بیماری ہے جس کا علاج کوئی طبیب نہیں کر سکتا اور اس مرض کی دوا وصال الہٰی ہے۔ اسی وجہ سے میں روتی ہوں اور اپنی صورت درد مندوں کے مثل بنائے رکھتی ہوں شاید قیامت میں اسی ذریعہ سے میری آرزوپوری ہو جائے۔
چند بزرگ آپؒ کے پاس آئے۔ آپؒ نے ان سے کہا کہ تم لوگ بیان کرو کہ خدا کی پرستش کیوں کرتے ہو۔ ایک نے کہا کہ ہم دوزخ کے طبقوں سے ڈرتے ہیں اور اسی پر سے قیامت میں گزرنا ہوگا۔ اس کے خوف کی وجہ سے ہم اللہ کی پرستش کرتے ہیں تا کہ دوزخ سے محفوظ رہیں۔ دوسرے نے کہا ہم بہشت کی آرزو کی وجہ سے اللہ کی پرستش کرتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ وہ بندہ بُرا ہے جو اللہ کی پرستش خوف دوزخ یا اُمید جنت کی وجہ سے کرے۔ ان بزرگوں نے کہا آپؒ کو اللہ سے اُمید یا خوف نہیں ہے۔ آپؒ نے فرمایا اس کی عبادت فرض عین ہے۔ پھر فرمایا اگر اللہ بہشت اور دوزخ نہ پیدا کرتا تو کیا اس کی بندے اس کی عبادت نہ کرتے اللہ کی پرستش بے واسطہ کرنا چاہئے۔
لوگوں نے آپؒ کی آزمائش کی غرض سے کہا کہ اللہ نے فضائل مردوں کو بہت دیئے ہیں اور مردوں میں انبیاء بھی بہت ہوئے کبھی کسی عورت کو مرتبہ نبوت نہیں ملا۔ آپؒ کو رتبہ ولایت نہیں مل سکتا پھر بناوٹ کرنے سے کیا فائدہ ہے۔ آپؒ نے کہا تمہارا قول درست ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ دنیا میں آج تک کسی عورت نے بھی سوا مردوں کے خدائی کا دعویٰ کیا ہے یا کوئی عورت بھی مخنث ہوئی ہے۔ حالانکہ ہزاروں مرد مخںث ہوئے ہیں۔ ایک بار آپؒ علیل ہوئیں لوگوں نے علالت کا سبب پوچھا آپؒ نے کہا میرے دل کو بخشت کی طرف توجہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ مجھ پر خفا ہوا اس کا عتاب میری علالت کا باعث ہے۔
حضرت حسن ب بصریؒ اور حضرت مالک بن دینارؒ اور حضرت شفیق بلخیؒ حضرت رابعہ بصریہؒ کے یہاں تھے اور صدق کی بابت آپس میں تزکرہ ہو رہا تھا۔ حضرت حسن بصریؒ نے کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ صبر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا اس قول سے خودی کی بو آتی ہے۔ پھر حضرت شفیق بلخیؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ شکر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے فرمایا اس سے بہتر تعریف صادق کی ہونا چاہئے۔ پھرحضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جسے اس کا مالک مارے اور وہ اس سے لزت نہ حاصل کرے۔ حضرت رابعہؒ نے پھر یہی فرمایا کہ اس سے بھی بہتر تعریف صادق کی ہونا چاہئے۔ ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ ہم لوگ اپنے اپنے نزدیک تعریف کر چکے اب آپؒ بھی کچھ فرمائیں۔ حضرت رابعہؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جس کو اپنے مولا کا دیدار حاصل ہو اور وہ اپنے زخم کی تکلیف بھول جائے تو ہرگز تعجب کی بات نہیں ہے اس لیے کہ مصرکی عورتوں نے جمال یوسفؑ دیکھ کراپنی انگلیاں کاٹ ڈالی تھیں اور ان کو اس کی تکلیف ذرا بھی معلوم نہیں ہوئی۔
شیوخ بصرہ میں سے ایک بزرگ حضرت رابعہؒ کے پاس تشریف لائے اور بیٹھ کر مزمت دنیا کی کرنے لگے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا معلوم ہوا کہ تمہیں دنیا سے بہت محبت ہے کیونکہ اگر تمہیں دنیا کی محبت نہ ہوتی تو ہرگز اس کا ذکر نہ کرتے۔ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کو دوست رکھتا ہے اسی کا ذکر زیادہ کیا کرتا ہے۔ آپؒ شام سے عبادت الہٰی کو کھڑی ہوتیں اور صبح کر دیتی تھیں فرمایا ہم اللہ کا شکر کس طرح ادا کریں کہ اس نے ہمیں عبادت کرنے کی توفیق دی۔ پھر فرمایا میں اس کے شکرانے میں کل روزہ رکھوں گی۔ آپؒ مناجات میں کہتی تھیں یا اللہ اگر قیامت کے دن مجھے دوزخ میں بھیجے گا تو میں تیرا ایسا بھید ظاہر کر دوں گی جس کی وجہ سے دوزخ مجھ سے ہزار برس کی راہ پر بھاگ جائے گی اور فرماتیں تو نے دنیا میں جو حصہ میرے لئے مقرر کیا ہے اپنے دشمنوں کے دے دے اور جو حصہ عقبیٰ میں میرے لئے رکھا ہے وہ اپنے دوستوں کو بانٹ دے کیونکہ میرے لئے تو ہی کافی ہے۔ اور فرمایا میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کروں تو تو مجھے دوزخ میں جلا اور اگر جنت کی آرزو کی وجہ سے عبادت کروں تو جنت مجھ پر حرام کر اور اگر تجھ کوتجھ سے چاہوں تو اپنا جمال مجھے نصیب کر اور فرمایا اللہ اگرتو مجھے دوزخ بھیجے گا میں فریاد کروں گی کہ میں نے تجھے دوست رکھا دوست دوستوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے۔ غیب سے آواز آئی اے رابعہؒ! تو ہم سے بد گمان نہ ہوہم تجھے اپنے دوستوں کے قرب میں جگہ دیں گے تا کہ تو ہم سے بات کر سکے اور فرمایا اللہ میرا کام اور میری آرزو دنیا میں تیری یاد ہے اور آخرت میں تیرا دیدار آگے تو مالک ہے جو چاہے کر۔ ایک شب کو عبادت کرتے وقت آپؒ نے فرمایا اے اللہ! یا میرے دل کو حاضر کر یا میری بےدلی کی عبادت کو قبول کر لے۔
جب آپؒ کی وفات کا زمانہ قریب ہوا جو مشائخ آپؒ کے قریب تھے ان سے آپؒ نے فرمایا تم لوگ اُٹھ جاؤ اور فرشتوں کے واسطے جگہ خالی کر دو۔ سب باہر چلے آئے اور دروازہ بند کر دیا ایک آواز سب لوگوں نے سنی وہ آواز یہ تھی
یا یھا النفس المطمئنتہ ارجعی
یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر اس کے بعد دیر تک کوئی آواز نہ آئی۔ لوگ اندر گئے دیکھا کہ آپؒ کووصال حق ہو چُکا تھا۔ آپؒ نے اس دنیائے بے بقا سے کوچ فرمایا۔
انا اللہ وانا الیہ راجعون
کسی نے آپؒ کو خواب میں دیکھا پوچھا منکر نکیر سے کیا معاملہ ہوا۔ آپؒ نے جواب دیا جب نکیرین آئے اور مجھ سے انہوں نے پوچھا تیرا رب کون ہے۔ میں نے کہا پلٹ جاؤ اور اللہ سے کہو کہ جب تو نے ایک ناتوان عورت کو باوجود اس کے کہ تجھے تمام مخلوق کا خیال تھا کبھی فراموش نہ کیا پھر وہ کیونکر تجھے بھول جاتی حالانکہ دنیا میں بھی اسے سوا تیرے کسی سے علاقہ نہ تھا۔ تو کیوں فرشتوں کے ذریعہ سے اس سے سوال کرتاہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں ہوں آپؒ پر ستاروں کی تعداد کے بقدر، ریت کے زروں کے برابر، پانی کے قطروں کے برابر اور ان عورتوں پر جو آپؒ کی راہ اختیار کریں اور سلام ہو آپؒ پر مسلمان بہن اور بھائیوں کی طرف سے آمین۔
MIRAJ GREEN
بدھ، 2 ستمبر، 2020
BIO-GRAPHY OF SHER SHAH SURI IN URDU
شیر شاہ سُوری
شیر شاہ سوری 1485ء مین افغانوں کے قبیلہ سور میں پیدا ہوا۔اس نے پانچ سال حکومت کی لیکن اس کے فلا حی کارناموں سے آج تک برصغیر پاک و ہند کے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
اس کے والد حسن خان نے سکندرلودھی کےعہد میں جونپور کے گورنر،جمال خان کی ملازمت اختیار کی جس نے اسے بہارمیں سہسرام کی جاگیر عطا کی۔ شیر شاہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والدین کی جاگیر کا وارث ہوا۔ بابر کے عہد میں اس نے ایک مرتبہ تلوار کے وار سے شیر کو مارا جس پر اسے "شیر خان" کاخطاب ملا۔ بابر کے دربارسے وابستہ ہو کر اور باریک بین نظروں سے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس نے چپکے چپکے افغانوں کو منظم کر کے ایک زبر دست قوت بنا لیا۔
جب ہمایوں بادشاہ بنا تو شیر خان نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بنگال اور بہار پر قبضہ کر لیا۔ چوسہ اور قنوج کے قریب لڑائیاں ہوئیں۔ ہمایوں مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور ایران چلا گیا اور شیر خان "شیر شاہ " کا لقب اختیار کر کے 1540ء میں ہندوستان کا فرما نروا بن گیا۔
شیر شاہ سوری کے دور حکومت کا سکہ
شیر شاہ سوری کا شمار برصغیر کے بلند پایہ اور کامیاب و کامران حکمرانوں میں ہوتا ہے ۔ اس نے حکومت کےہرشعبےاور ہر محکمے کا انتظام اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا ۔ زمین کی پیمائش اور مالیے کی تشخیص کے منصفانہ قوائد بنائے اور کسانوں کو مالیہ نقد یا جنس کی صورت میں ادا کرنے کی اجازت دی۔
ہر مقدم ( ڈپٹی کمشنر) کو علاقے میں امن کا ذمہ دار ٹھہرا کر پورے ملک میں مکمل امن قائم کر دیا ۔ غیرملکی تجارت عروج پر پہنچی ،اس ضمن میں راستے محفوظ تھے۔ زرات نے بھی ترقی کی ۔
اس کی حکمرانی میں مذہب ، قوم ،قبیلےاور فرقے کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ ٹوڈرمل جو آگے چل کر اکبر کے نورتنوں میں شامل ہوا۔ پہلے پہل شیر شاہ ہی کے ما تحت اُونچے منصب پر پہنچا تھا ۔ شیر شاہ سوری نے رفاہ عامہ کے بے شمار کام کیئے۔ سرائیں بنوائیں، کنویں کھدوائے، مندر اور مساجد بنوائیں۔ سڑکوں کے دونوں اطراف درخت لگوائے۔ اس کے دور میں کسی قسم کی دہشت گردی اور لوٹ مار نہیں تھی۔ مکمل امن و امان کا دور تھا ۔
اس کی عہد کی بنائی ہوئی تین شاہراہیں آج تک چار صدیوں سے زیر استعمال ہیں۔ اول بنگال سے پشاور جی ٹی روڈ یا جرنیلی سڑک ، دوسری لاہور سے ملتان تک ، تیسری دہلی سے راجپوتانےکے قلب تک ۔
جہلم کے قریب رہتاس کا قلعہ اس کی یادگار ہے ۔ 1545ء میں شیر شاہ سوری کی کا لنجر کے راجہ سے لڑائی ہو رہی تھی کہ ایک بارود کے انبار میں گولہ گر کر پھٹا۔ جس سے شیر شاہ بُری طرح جھلس گیا۔ اگلے روز اسے کا لنجرکا قلعہ فتخ ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسی لمحے 22 مئی 1545ء کو وفات پائی۔
BIO-GRAPHY OF MIAN MUHAMMAD BAKHSH (R.A) IN URDU
میاں محمد بخشؒ
آپ کی پیدائش:میاں محمد بخش ؒ کے والد کا نام حضرت میاں شمس الد ینؒ تھا۔ آپ ؒکا حسب و نسب چوتھی پشت پر حضرت پیراں شاہ غازی قلندرؒ (دمڑی والی سرکار ؒ )سے جاملتا ہے۔ آپ ؒ 1246 ھ 1846 ء میں خانقاہ شریف کھڑی ریاست میر پور میں پیدا ہوئے۔
آپ کا کلام : شاہ حسین ؒ بُلھے شاہ اور دوسرے صو فی بزرگ شا عروں نے پنجابی شاعری کا آغاز کیا۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ نے ان جید صوفی بزرگوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پنجابی میں شاعری کا آغازکیا۔ آپ کی شاعری لوگوں میں بہت مقبول و عام یے۔ لوگ آپ ؒ کے پنجابی کلام کو بڑے زوق و شوق سے سنتے ہیں۔
آپ ؒ کی ابتدائی تعلیم : آپ ؒ نے حافظ محمد علی صا حب ؒ کے مدرسے سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ سموال شریف میں واقع اس مدرسہ میں آپ ؒ اپنے بھائی حضرت میاں بہاول بخش ؒ کے ساتھ جاتےتھے۔ آپ ؒ کو ابتدا ہی سے علم حاصل کر نے کا بہت شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم میں آپ ؒ نے نظم ونشر، حدیث،فقہ،منطق اور اصول جامع میں مہارت حاصل کی۔
آپ ؒ کی بیعت کا واقع: آپ ؒ کس فردواحد کی بیعت کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ ؒ نےایک رات حضرت سرکاردمڑی والا کی خدمت میں اپنا ورعا بیان کیا۔ انہوں نے آپ ؒ کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا۔
اے فرزند! عالیہ قادریہ میں حضرت سائیں غلام صاحب ؒ کلروڑی شریف والوں کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ اس طرح حضرت میاں محمد بخش ؒ نے جناب سائیں غلام محمد ؒ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
آپ ؒ کی اہم تصانیف
(1) تحفہ رسولیہ معجزات جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(2) تحفہ میراں کرامات غوث الاعظم ۔ ۔
(3)ہدایت المسلمین۔ ۔
(4)گلزار فقراء۔ ۔
(5) نیرنگ عشق۔ ۔
(6) سخی خواص خان ۔
(7) سی حرفی سسی پنوں۔ ۔
(8) سی حرفی ہیر رانجھا۔ ۔
(9) مرزاہ صا حباں۔ ۔
(10) تزکرہ حقیمی۔ ۔
(11) قصہ سوہنی مہینوال۔ ۔
(12) شاہ منصور۔ ۔
(13) شیریں فرہاد۔ ۔
(14) سیف الملوک۔ ۔
(15) قصہ شیخ صنعاں۔ ۔
ان کے علاوہ بھی آپ ؒ کی بہت سی تصانیف ہیں جو کہ نایاب ہو چکی ہیں۔ آپ ؒ کی تحریروں میں شعروں کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ آپ ؒ کو فارسی، اردو، پنجابی اور عربی نظم و نثر پرعبور حا صل تھا ۔
آپ ؒ کا وصال: آپ ؒ ذوالحج کے مہینہ میں 1324 ھ 1907 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
آپ ؒ کا ارشاد تھا کہ مجھے وا شخص غسل دے جس نے ساری عمر غیر محرم کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا ہو۔ آپؒ کو حافظ مطیع اللہ صا حب سموال شریف نے غسل آخرت دیا۔ کیو نکہ انہوں نے کبھی کسی نا محرم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا نہ تھا۔
مزار شریف
آپؒ کا مزار : آپ ؒ کا مزار کھڑی شریف کے قریہ پر نور میں حضرت پیر شاہ غازی قلندر بادشاہ ؒ کے قریب واقع ہے۔ اس کے علاوہ آپ ؒ کا عرس چار مختلف مقامات پر ہوتا ہے۔ لیکن مزار صرف ایک جگہ پر واقع ہے۔ زائرین کی کثیر تعداد آپؒ کے مزار پر بڑے ذوق و شوق سے حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
Hiqayat-e-Rumi /Maulana Rome (R.A)
حکایات رومی
آب حیات کا متبادل میوہ
حضرت مولانا رومیؒ بیان فرما تے ہیں کہ ایک عقل مند نےقصے کے طور پر بیان کیا کہ ہندوستان میں ایک درخت ہےجو کوئی اس کا پھل کھائے تو نہ کبھی بھوڑھا ہو گا نہ کبھی مرےگا۔ایک بادشاہ نے سن کر یقین کر لیا اور اس درخت اور اس کے پھل کا مشتاق ہو گیا۔اپنے وزیروں میں سےایک عقل مند کو قاصد بنا کر اس درخت کی تلاش میں ہندوستان بھیجا۔وہ شہر شہر پھرا بلکہ نہ کوئی جزیرہ چھوڑانہ پہاڑ نہ جنگل۔جس سے اس نےدرخت کا پتا پوچھا اس نے ہنسی اُڑائی اور کہ دیا کہ ایسی تلاش تو سوائے پا گل کے اور کوئی نہیں کرے گا ۔وہ ہر شخص سے بر خلاف بات سنتا تھا مگر اپنی دُھن چھوڑتا نہ تھا۔ برسوں ہنوستان میں سفر کرتا رہا اور بادشاہ اُس کو اخراجات بھیجتا رہا۔جب مسافرت کی تکلیف حد سے گزری تو آخرکاردرحت کی تلاش سے تنگ آ گیا کیونکہ درخت کا نام و نشان کہیں نہ ملا اور مقصود کی اصلیت سوائے خبر یا روا یت کے اور کُچھ ثابت نہ ہوئی۔اس کی اُمید کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور جس قدرڈھونڈاتھا وہ سب نہ ڈھوڈنے کے برابر ہو گیا۔مجبور اور ما یوس ہو کراس کے پاس جا ءوں،ممکن ہے کہ سیدھے راستے پر لگ جاءوں۔ چونکہ میں اپنے مطلب سے نا اُمید ہوں شاید کہ اس کی دعا میرے ہمرا ہو جاءے۔الغرض وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سےشیخ کی خدمت میں حاضرہوا اور برستے بادل کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔غرض یہ کہ یا حضرت یہ وقت رحم اور مہربانی کا ہے،میں بلکل نا اُمید ہوں۔بس یہی گھڑی بخشش کی ہے۔شیخ نے کہا کہ اچھی طرح کھُل کر کہو کہ نا اُمیدی کس سبب سے ہے؟ تیرا مطلب کیا تھا اور تیری دُھن اب کیا ہے؟جواب میں عرض کی بادشاہ نے مجھےایک درخت کی دریافت پر مقرر کیا تھا کہ جس کا پھل آب حیات کا حکم رکھتا ہے۔ میں نے اس کو بھرسوں ڈھونڈامگر سوائے طعنوں کہ اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ یہ سن کر شیخ بہت ہنسااور کہا کہ بھلے مانس یہ درخت علم کا ہے۔ تودرخت کی ظاہری صورت کا گمان کر گیا،اس لیے شاخ معنی سے بے نصیب رہا ،کہیں اس کا نام درخت ہو جاتا ہے،کہیں سورج ہو جاتا ہے،کبھی اس کا نام سمندر ہو جاتا ہے اور کبھی بادل۔
اس کی ہزار ہا صفات ہیں۔انہی میں سے ایک صفت بقا ئے دوام ہے۔اے جوان تو صورت کوکیا ڈھونڈتا ہے،اس کے معنی تلاش کر،صورت ظاہرتو چھلکا ہےاور معنی اس پھل کا گودا،نام کو چھوڈاورگن (صفت) کو دیکھ تا کہ گن سے تجھے زات کی رہنمائی ہو۔ نام ہی سے مخلوقات کے پاس اختلاف پیدا ہوا ہے۔جہاں معنی پر پہنچے کہ اختلاف جاتا رہا۔اسی مضمون پرایک دلچسپ مثال سُن تا کہ تو ناموں ہی ناموں میں نہ اٹکا رہ جائے۔
( ؒ مولانا روم)
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
Koi to hai jo nizam-e-hasti chala raha hai wohi KHUDA hai Miraj...
-
تزکرۃُالاولیاء ذکرخیرحضرت ابوالعباس نہاوندیؒ کے حالات میں حضرت شیخ ابوالع...